یورپی یونین کے معاشی پالیسیوں کے نگران ادارے نے خطے کی معاشی ترقی کے ہدف میں نمایاں کمی کردی ہے جسے اٹلی اور یونان کے سیاسی و معاشی بحران میں پھنسے یورپ کے لیے ایک اور بری خبر قرار دیا جارہا ہے۔
یورپی یونین کے معاشی و مالی معاملات کے کمشنر اولی ریہن نے جمعرات کو برسلز میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ آئندہ برس یورپی یونین کی شرحِ نمو صرف 6ء0 فی صد جب کہ 17 ملکی 'یورو زون' کی 5ء0 فی صد رہنے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ یہ پیش گوئی یورو کی آئندہ برس رہنے والی شرحِ ترقی کے ابتدائی اندازے سے کہیں کم ہے جس کے بارے میں رواں برس کے آغاز پر امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ 8ء1 فی صد کی سطح پر رہے گی۔
کمشنر ریہن نے یورپ کو درپیش مالی مشکلات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ یورپ میں 'جی ڈی پی' کی شرح میں رواں برس کسی اضافے کا امکان نہیں بلکہ اس کے برعکس بعض ممالک کی 'جی ڈی پی' میں کمی آنے کا اندیشہ ہے۔
کمشنر نے یورپی یونین کے پانچ اراکین – بیلجئم، قبرص، ہنگری، مالٹا اور پولینڈ – کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے اپنے بجٹ میں کٹوتی نہ کی تو انہیں پابندیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
یورپی معیشتوں کی زبوں حالی پر عالمی برادری کی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسٹر ریہن کا کہنا تھا کہ یورو کرنسی استعمال کرنےو الے کئی ممالک کو درپیش قرضوں کے بحران اور عالمی معیشت کی خستہ حالی کے باعث رواں برس اپریل کے بعد سے یورپی معیشت پر عالمی برادری کا اعتماد تیزی سے متاثر ہوا ہے۔
اس سے قبل 'بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)' کی سربراہ کرسٹین لگارڈ بھی معاشی اور سیاسی بحران کا شکار یورپی ممالک اٹلی اور یونان سے اپنی صورتِ حال واضح کرنے کا مطالبہ کرچکی ہیں۔
آئی ایم ایف کی سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ یورپ کی صورتِ حال اور امریکہ میں بڑھتی ہوئی بےروزگاری اور معاشی سرگرمیوں کی سست روی کے باعث خدشہ ہے کہ اگلا عشرہ عالمی معیشت کے لیے "خسارے کی دہائی "ہوگا۔
لگارڈ کے بقول، "ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے مل کر غیر معمولی اقدامات نہ کیے تو خدشہ ہے کہ عالمی معیشت غیر یقینی، معاشی عدم استحکام اور عالمی طلب کے ممکنہ خاتمے کے گرداب میں پھنس جائے گی"۔
دریں اثنا برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ جرمنی اور فرانس کے سرکاری عہدیداران نے یورپی یونین میں بنیادی تبدیلیوں اور 27 رکنی تنظیم کے مقابلے میں ایک مختصر لیکن مستحکم 'یورو زون' قائم کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے۔
لیکن بظاہر فرانس اور جرمنی کا باقاعدہ موقف یہی رہا ہے کہ وہ 17 رکنی 'یورو زون' کے برقرار رہنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ بیشتر تجزیہ کاروں کی رائے بھی یہی ہے کہ بیک وقت دو یورپی ماڈل کی تجویز کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہوگا۔
تاہم یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ 'یورو زون' کا مالی بحران آئندہ کئی ماہ تک خبروں کی سرخیوں میں رہے گا جس کے باعث یورپی
رہنماؤں پر اس بحران کا ایک جامع اور دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے دباؤ بھی برقرار رہنے کا امکان ہے۔