ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیس بک اور ٹوئٹر نے ایسے اکاؤنٹس کا نیٹ ورک اپنے پلیٹ فارمز سے ہٹا دیا ہے جو مغرب نواز پراپیگنڈا پھیلانے سمیت روس، چین اور ایران پر تنقید کر رہے تھے۔
امریکہ کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی اور سوشل میڈیا پر تجزیہ کرنے والی فرم گرافیکا کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان خفیہ مہمات کا سلسلہ پانچ برس تک چلایا گیا جب کہ یہ اکاؤنٹ ان کمپنیوں کی خدمات کی فراہمی کی شرائط کے برخلاف تھے۔
محققین کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر اور فیس بک نے اب تک ان افراد یا اداروں کی نشاندہی نہیں کی جو ان مہمات کے ذمہ دار ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ٹوئٹر نے ان مہمات کا مرکز برطانیہ اور امریکہ کو قرار دیا جب کہ فیس بک اور انسٹاگرام نے نشاندہی کی ہے کہ یہ مہمات امریکہ سے چلائی جا رہی تھیں۔
SEE ALSO: انسٹاگرام کی نئی اپ ڈیٹس سے پاکستانی صارفین اور کانٹینٹ کرئیٹر پریشانگزشتہ چند برسوں میں سوشل میڈیا کمپنیوں نے ایسے اثر و رسوخ پھیلانے والے آپریشنز بند کیے ہیں جن کے پیچھے روس، چین اور ایران کی آمرانہ حکومتیں تھیں۔ ایسے 'آن لائن انفلوئینس آپریشن' کی نشاندہی کے بعد، جسے امریکہ سے چلایا جا رہا تھا اور جس میں جعلی اکاؤنٹس اور جعلی فالورز کے ذریعے ایک بیانیہ پھیلایا جا رہا تھا ، بہت سے سوال پیدا ہو گئے ہیں۔ یہ آپریشن کون چلارہا تھا، اس کے اہداف کیا ہیں اور کیا یہ آپریشن متاثر کن تھا؟
جمعرات کے روز وائس آف امریکہ کی جانب سے اس سوال پر کہ آیا امریکی فوج نے یہ فیک اکاؤنٹس بنائے تھے؟ جس پر پینٹاگان کے پریس سیکریٹری اور امریکی ائیرفورس کے بریگیڈئیر جنرل پیٹ رائیڈر نے بتایا کہ حکام کو فیس بک اور ٹوئٹر کے دیے گئے ڈیٹا کا معائنہ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی فوج دنیا بھر میں 'فوجی معلومات کی حمایت میں جاری کیے جانے والے آپریشنز' پر کام نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ "میں جاری آپریشنز، تدابیر اور طریقہ کار کے بارے میں بات نہیں کروں گا، اس کے علاوہ یہ کہ ہم دی گئی پالیسی کے مطابق ہی کام کرتے ہیں۔"
محققین کے مطابق یہ جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس، گمنام میڈیا ویب سائٹس اور امریکی فوج سے تعلق رکھنے والے ذرائع جیسے وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والی ایسی ویب سائٹس کے لنک، جو امریکی سینٹرل کمانڈ کو اپنا اسپانسر ظاہر کرتی تھیں، اکثر شیئر کرتے تھے۔
SEE ALSO: روس کا واٹس ایپ، اسنیپ چیٹ اور دیگر سوشل میڈیاپلیٹ فارمز پر جرمانہمزید برآں، رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ اکاؤنٹ وائس آف امریکہ اور ریڈیو فری یورپ کے مضامین بھی شیئر کرتے تھے۔ گمنام ویب سائٹس وائس آف امریکہ، بی بی سی روس اور دوسرے ذرائع سے مضامین کی نقول اپنی ویب سائٹس پر لگاتی تھیں۔
یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کا مؤقف
جمعرات کے روز وائس آف امریکہ اور ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی کا نگران ادارہ، یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (یو ایس اے جی ایم) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسے ان اکاؤنٹس کے بارے میں علم نہیں تھا۔
یو ایس اے جی ایم کی ترجمان لیزلی جیکسن نے وائس آف امریکہ کی مشیل کوئین کو بذریعہ ای میل بتایا کہ "یو ایس اے جی ایم صرف اپنے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ویب سائٹس چلاتا ہے، جس کے لیے بہترین معیار کا خیال رکھا جاتا ہے اور یہ کہ آفیشل اکاؤنٹس حقائق پر مبنی، قابلِ رسائی اور قابل شناخت ہوں۔"
جیکسن نے اس بات کی تصدیق کی کہ یو ایس اے جی ایم امریکی حکومت کے کسی اور ادارے کے ساتھ مل کر فیک اکاؤنٹس کے ذریعے خبروں کی اشاعت نہیں کرتا۔
انہوں نے لکھا، "آزادی اور جمہوریت کی حمایت کے لیے، یو ایس اے جی ایم کا مشن ہے کہ وہ دنیا بھر میں لوگوں کو معلومات فراہم کرے گا، ان کے ساتھ رابطہ کاری کرے گا اور جن لوگوں کو اس کی ضرورت ہے ہمیشہ ان کے لیے مصدقہ معلومات کی آزادی کی حمایت اور جعلی و من گھڑت معلومات اور سنسرشپ کے خلاف کھڑا رہے گا۔"
اکاؤنٹس کا طریقہ کار
ان اکاؤنٹس میں پراپیگنڈا پھیلانے کے لیے ایسی مہمات میں استعمال کیے جانے والے عمومی ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جن میں جعلی اور تبدیل شدہ تصاویر کا استعمال، فیک اکاؤنٹس کے ذریعے ہیش ٹیگ پھیلانا اور حمایت حاصل کرنے کے لیے پٹیشن شروع کرنا شامل ہیں۔
وسطی ایشیا کا ایک اکاؤنٹ مشرق وسطی اور افریقہ میں روسی فوج کی کارروائیوں پر پوسٹس لگاتا رہا۔ لیکن فروری کے بعد سے ان کی توجہ یوکرینی فوج پر مرکوز ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ اکاؤنٹ اس تنازع کو وسطی ایشیائی آبادی کے لیے خطرے کے طور پر پیش کرتا رہا۔
SEE ALSO: غریدہ فاروقی کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرولنگ، ’’یہ خوفزدہ لوگ ہیں اختلاف رائے کا احترام نہیں کرتے‘‘رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک آن لائن پٹیشن کا تعلق، جس میں ایک وسطی ایشیائی حکومت سے روسی ٹی وی چینلز پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا ، ان اکاؤنٹس سے ظاہر ہوا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان جعلی اور غیر مصدقہ اکاؤٹس کے ہتھکنڈے زیادہ تر ناکام رہے اور ان سے بہت زیادہ رابطہ کاری پیدا نہیں ہوئی۔ اکثر ٹوئٹس اور پوسٹس کو چند ہی ری ٹویٹس اور لائیکس ملے اور زیادہ تر اکاؤنٹس کے ایک ہزار سے بھی کم فالوورز تھے۔