اقوامِ متحدہ کےشعبۂ انسداد دہشت گردی کے سربراہ ویلادیمیر ولونوکوف نے یو این سیکیورٹی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاتھا کہ افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد لگ بھگ20 دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی خطے اور خطے کے باہر ممالک کے لیے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔
گزشتہ ہفتے ہونے والی اس بریفنگ کے جواب میں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اقوامِ متحدہ کے ان تحفظات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
ذبیح االلہ مجاہد کا دعویٰ ہے کہ طالبان نے افغانستان میں داعش کے خلاف سینکڑوں آپریشن کیے ہیں اور ان کا اسلحہ و بارود ضبط کرکے انہیں گہری زک پہنچائی۔ گزشتہ ایک برس سے داعش کی سرگرمیاں صفر ہو چکی ہیں لیکن پھر بھی بے بنیاد پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
ان کے بقول اس طرح کی باتیں کرنے والے یا تو بے خبر ہیں اور یا پھر داعش کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے بھی اپنی رپورٹ میں افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں میں کمی ہونےکا اعتراف کیا تھا۔
زمینی حقائق کیا ہیں؟
دو برس قبل جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہو رہا تھا تو 26اگست 2021 کو افغان طالبان کی موجودگی میں ہی داعش نے کابل ایئر پورٹ پر حملہ کرکے پیغام دیا تھا کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔
اس خودکش حملے کے بعد داعش نے، افغان طالبان رہنماؤں اور اقلیتوں پر متعدد حملے کیے۔
طالبان کا مؤقف ہے کہ افغانستان میں داعش کی کارروائیاں صفر ہو گئی ہیں۔ لیکن رواں برس مارچ میں ہی داعش نے دارالحکومت کابل میں طالبان کی وزارتِ خارجہ کی عمارت پر حملہ کیا تھا جس میں چھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی۔
مبصرین کے نزدیک اس میں کوئی شک نہیں کہ داعش کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ داعش کی سرگرمیاں صفر ہو چکی ہیں، درست نہیں۔
SEE ALSO: افغانستان میں داعش سمیت 20 دہشت گروہوں کی موجودگی بڑا خطرہ ہے: اقوام متحدہ’کارروائیوں میں کمی داعش کی شکست نہیں‘
افغانستان اور خطے کے سیکیورٹی امور پر نظر رکھنے والے صحافی اور محقق ریکارڈو ولے سمجھتے ہیں کہ داعش کی کارروائیوں میں کمی کو ان کی شکست سے تعبیر نہیں کرناچاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ افغان طالبان کی انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں نے ملک میں داعش کی کارروائیوں کو کسی حد تک روک دیا ہے۔ طالبان کی خفیہ اطلاعات کا ادارہ ’جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جینس‘ (جی ڈی آئی) مؤثر طریقے سے داعش کے سیلز کی نشاندہی کرنے اور اسے غیر مؤثر کرنے میں مصروف ہے جب کہ داعش کے اہم رہنماؤں کو نشانہ بنانے یا گرفتار کرنے میں بھی اسے کامیابیاں ملی ہیں۔
ان تمام وجوہات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ریکارڈو ولے کہتے ہیں کہ یہی وہ عوامل ہیں جن کے سبب افغانستان میں حملوں میں کمی آئی ہے۔ لیکن اس وقت اسے داعش کی مکمل شکست نہیں سمجھنا چاہیے۔
بقول ان کے داعش بطور تنظیم نئے ماحول کے مطابق اپنی حکمتِ عملی ترتیب دے رہی ہے۔وہ چھوٹے پیمانے پر شورش کے مقابلے میں انفرادی طور پر تباہ کن بڑے حملوں اور ہائی ویلیو ٹارگٹس کو نشانہ بنانے کو ترجیح دیتی ہے۔
داعش کی حکمتِ عملی
ماضی میں داعش اس طرح کے حملے کر چکی ہے جس کی مثال مارچ 2023 میں صوبہ بلخ میں طالبان کے مقرر کردہ گورنر محمدداؤد مزمل کا قتل ہےجنہیں ایک خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس کے بعد طالبان نے افغانستان کے شمال میں داعش کے خلاف بھرپور کارروائیاں کیں۔
ماہرین کے مطابق اس دوران داعش مزید کارروائیوں کے بجائے اپنی استعداد بڑھانے لیے جنگجوؤں کی بھرتی میں مصروف رہی۔
SEE ALSO: داعش شام اور عراق کے ساتھ ساتھ افغانستان کے لئےبھی سنگین خطرہ، اقوام متحدہافغانستان کے پڑوسی ممالک کے لیے خطرات
اقوامِ متحدہ کی بریفنگ میں ذکر کیا گیا کہ داعش سمیت افغانستان میں لگ بھگ 20عسکریت پسند تنظیمیں موجود ہیں۔ ان تنظیموں میں مقامی افغان جنگجوؤں کے علاوہ بڑی تعداد میں پڑوسی ممالک کے عسکریت پسندبھی شامل ہیں۔ ان میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
پاکستان کے افغانستان سے ملحق صوبے خیبر پختونخوا کے لیے انسداد دہشت گردی کی پہلی پالیسی بنانے والے سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں فرقہ پرستی پر مبنی انتہا پسند تنظیمیں تو موجود تھیں لیکن افغان جنگ اور پھر 11 ستمبر 2001 کے بعد مختلف حالات و واقعات نے ٹی ٹی پی کو جنم دیا جس میں ہر طرح کی تنظیمیں ضم ہوتی چلی گئیں۔
’ ٹی ٹی پی افغان طالبان کے لیے مسئلہ نہیں‘
سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ٹی ٹی پی خود افغان طالبان کے امیر ہبت اللہ اخوند کے زیرِ حلف ہے۔ ان کے بقول ٹی ٹی پی افغان طالبان کے لیے مسئلہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کے لیے مسئلہ ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ افغانستان میں داعش سمیت کوئی بھی تنظیم، چاہے شمالی اتحاد ہی کیوں نہ ہو، اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ بڑی جنگ لڑ سکیں۔ ان کے بقول داعش ’حملہ کرو اور بھاگ جاؤ‘ والی پوزیشن رکھتی ہے۔
"یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی موجودگی پاکستان کے لیے مستقل خطرہ ہے۔"
اسلام آباد بھی گاہے بگاہے یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کا بنیادی ماخذ افغانستان ہے، جہاں سے پاکستان میں حملے کیے جا رہے ہیں اور جس کی ذمہ داری افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی قبول کرتی رہی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں حملے روکنا ہماری ذمہ داری نہیں: افغان طالبانایران میں حملے اور داعش کا کردار
مئی اور اگست 2023 میں ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان اور فارس میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری جہاں داعش نے قبول کی وہاں ایرانی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ان حملوں میں افغانستان کے شمال مشرقی حصے سے تعلق رکھنے والے تاجک شہری ملوث تھے۔
اس سے قبل اکتوبر 2022 میں ایران کے شہر شیراز میں شاہ چراغ کے مزار کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایران کی سرکاری میڈیا کے مطابق اس حملے میں ملوث دو افغان شہریوں کو جولائی 2023 میں سرعام پھانسی دی گئی۔
ان افغان شہریوں کی سزائے موت پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے آواز ٹھائی تھی۔
ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان کی صورتِ حال
پاکستان اور ایران کے علاوہ افغانستان کی سرحدیں وسطی ایشیا میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان اور شمال مشرق میں چین ملتی ہیں۔
افغانستان کے شمال میں موجود ان تین ریاستوں میں گزشتہ ایک سال میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا یا کوئی ایسی کارروائی نہیں ہوئی جس کی ذمہ داری افغانستان میں موجود کسی عسکریت پسند تنظیم نے قبول کی ہو۔
البتہ 2022 میں تاجکستان اور ازبکستان کی سرحدوں پر راکٹوں سے حملوں کے کچھ واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
تیمور عمروف وسطی ایشیا اور چین کی خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں اور بطور محقق امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک ’کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس‘ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وسطی ایشیائی ریاستیں افغانستان کے ساتھ سرحدوں کے حوالے سے ہمیشہ سے فکر مند رہی ہیں۔
SEE ALSO: طالبان کی افغانستان سے باہر ’جہاد‘ کی مخالفت؛ کیا ٹی ٹی پی اس اعلان پر عمل کرے گی؟ان کا کہنا تھا کہ چونکہ تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کی یہ فکرمندی سیکیورٹی چیلنجز کی شکل میں رہی ہے اس لیے افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ان ریاستوں نے باہمی اشتراک سے سرحدوں کی حفاظت کو ممکن بنایا ہے۔ ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ اب تک کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔
ان وسطی ایشیائی ممالک کی سرحدی سیکیورٹی کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ان تمام ریاستوں نے افغان طالبان کے ساتھ اسی وجہ سے تعلقات استوار کیے ہیں۔
تو پھر وجہ کیا ہے کہ افغانستان سے ملحق پاکستان اور ایران پر تو اس کی موجودہ صورتِ حال کے اثرات پڑ رہے ہیں جب کہ چین سمیت وسطی ایشیائی ریاستیں اس حد تک عسکریت پسندی کی لپیٹ میں نہیں ہیں۔
اس کی ایک وجہ بعض ماہرین پاکستان اور ایران کی افغانستان کے ساتھ سرحد کی طوالت کو قرار دیتے ہیں۔ دوسری اہم وجہ بارڈر پر بھرپور حفاظتی اقدامات ہیں جس کی وجہ سے وسطی ایشیائی ریاستیں زیادہ محفوظ تصور کی جاتی ہیں۔
تیمور عمروف کے بقول ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تینوں وسطی ایشیائی ریاستوں نے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات بہتر کیے ہیں۔
وہ ازبکستان کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے ساتھ تجارتی معاملات کو ٹھیک رکھا ہے۔ اس طرح کے معاملات اس لیے اہم ہیں کہ باہمی دلچسپی اور مفادات کے لیے سیکیورٹی معاملات کو بہتر رکھا جائے۔
افغان طالبان کے داعش کے خلاف اقدامات اسلام آباد کے لیے کس حد تک فائدہ مند
ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی افغانستان میں موجودگی نے ایک اور مسئلے کو بھی جنم لیا ہے۔
ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے رابطے اگرچہ دیگر عالمی دہشت گرد تنظیموں سے رہے ہیں۔ لیکن اب پہلی بار بلوچستان میں بلوچ مزاحمت کاروں اور ٹی ٹی پی کے مابین بھی رابطےبڑھ گئے ہیں۔
SEE ALSO: ’طالبان القاعدہ کو افغانستان سے نکالنے میں مدد کر رہے ہیں‘: صدر بائیڈن کے بیان پر تنازعپاکستان میں داعش کے کارروائیاں کرنے والوں عسکریت پسندوں کا تعلق ماضی میں کسی نہ کسی شکل میں ٹی ٹی پی سے رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو افغانستان میں بھی داعش کی بنیاد ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے منحرف جنگجوؤں نے رکھی۔
محقق اور تجزیہ کار ریکارڈو ولے اس بات درست قرار دیتے ہوئے مثال دیتے ہیں کہ پاکستان میں عسکریت پسندی میں اضافہ دیکھا جاتا ہے۔ افغانستان میں داعش کے خلاف طالبان کی کارروائیوں نے پاکستان میں داعش کو کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا۔ اس کے برعکس داعش پاکستان میں بڑے حملے کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ان میں ایک بڑا حملہ پاکستان کے سرحدی علاقے باجوڑ کے صدر مقام خار میں کیا گیا۔
داعش کی صفوں میں پاکستانی طالبان کی موجودگی کے باعث داعش اور ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں اور حملوں کے حوالے سے الجھنوں نے بھی جنم لیا۔ یہ تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ حملے میں درحقیقت کون ملوث ہے۔ یہ ابہام اس وقت تک موجود رہتا ہے جب تک کوئی گروہ حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔
ریکارڈو ولے کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح داعش مختلف اہداف اور پس منظر رکھنے والےان مختلف گروہوں اور افراد کے لیے ترجیحی بنیادوں پر ایک نظریاتی پلیٹ فارم ہے جو داعش کو اپنی جدوجہد کے لیے بہترین آپشن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس لیے ہم نے پاکستان میں حملوں میں اضافہ دیکھا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ داعش میں شامل ہونے کے لیے تاجکستان سے افغانستان آنے والوں نے ایران میں بھی کارروائیاں کیں۔ یہی صورتِ حال دنیا بھر سے افغانستان آنے والے دیگر جنگجوؤں کی بھی ہے۔
پاکستان کے لیے خطرہ اس لیے دیگر پڑوسیوں سے زیادہ ہے کیوں کہ افغان طالبان افغانستان میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی سے گریزاں ہیں جب کہ خود ٹی ٹی پی کے کئی جنگجو داعش میں شمولیت اختیار کرکے خطے کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکے ہیں۔