سندھ میں ہندو خاتون کا لرزہ خیز قتل: 'کبھی ایسا واقعہ سنا نہ دیکھا'

دیا بھیل کی نعش اُن کے گھر کے قریب سرسوں کے کھیت سے ملی تھی۔

"اماں نے مجھے کہا کہ تم اب گھر رکو میں باقی گھاس لے کر آتی ہوں، یہ کہہ کر وہ چلی گئیں لیکن پھر لوٹ کر نہیں آئیں۔" یہ کہنا ہے مقتولہ دیا بھیل کی کمسن بیٹی کا جو اپنی ماں کے قتل کی صبح گھاس کاٹنے ساتھ گئی تھی۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں ہندوؤں کی بھیل برادری سے تعلق رکھنے والی دیا بھیل کو بے دردی سے قتل کیے جانے پر پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت سے بھی ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔

بھارتی حکومت نے اس خبر پر ردِعمل دیتے ہوئے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں ہندو برادری کا تحفظ یقینی بنائے۔

ضلع سانگھڑ کے علاقے سنجھورو کے گاوں ڈپٹی کی رہائشی دیا بھیل، بیوہ اور پانچ بچوں کی ماں تھی ان کے بچوں میں ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں جن میں ایک بٰیٹی کے علاوہ تمام شادی شدہ ہیں۔

دیا کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ 28 دسمبر کی صبح معمول کے مطابق گھر سے کچھ فاصلے پر سرسوں کے کھیتوں کے پاس گھاس کاٹنے نکلی تھیں۔

اس وقت ان کی 14 برس کی بیٹی ان کے ہمراہ تھی۔ گھاس کا ایک گٹھر وہ اپنی بیٹی کے ساتھ گھر لائیں جس کے بعد انہوں نے اپنی بیٹی کو گھر ہی میں رکنے کا کہا اور باقی گھاس لینے کے لیے دوبارہ کھیتوں کا رخ کیا جس کے بعد وہ واپس نہیں آئیں۔

کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد ان کی لاش گھر سے 500میٹر کی دوری پر رات میں ان ہی کھیتوں کے قریب سے ملی جہاں وہ گئی تھیں۔

دیا کے اہلِ خانہ کے مطابق اُن کا سر تن سے الگ تھا جب کہ چہرے، سینے اور بازؤں کی کھال کھینچ لی گئی تھی۔

پولیس نے لاش کا ابتدائی معائنہ کر کے اسے پوسٹ مارٹم کے لیے سول اسپتال روانہ کیا جہاں اسپتال انتظامیہ کا کہنا تھا کہ قتل کے لیے تیز دھار آلہ استعمال کیا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ نے اس معاملے پر متعدد بار پولیس سے رابطے کی کوشش کی لیکن تعارف جاننے کے بعد ان کی جانب سے فون بند کردیا گیا۔ تاہم ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ جمعے کی شام کو پولیس کو دیا کے اس روز زیرِ استعمال گھاس کاٹنے والی داتری اور کپڑا ان کے گھر کے قریب سے ملا ہے جس کے بعد تحقیقات میں مزید تیزی آگئی۔

اس واقعے پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سندھ ٹی وی کے سینئر صحافی انجم آفتاب کا کہنا تھا کہ دیا بھیل کے قتل کے روز وہ جائے وقوعہ پر موجود تھے۔

اُن کے بقول ’’جہاں سے دیا کی لاش ملی وہاں خون کے دھبے نہیں تھے تاہم وہا ں سے ایک گولی کا خول بر آمد ہوا۔ پولیس نے لاش کو سول اسپتال پہنچانے کے بعد سراغ رساں کتوں کی مدد سے کھیتوں کی تلاشی بھی لی۔‘‘

اس قتل کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لے کر اعلی سطح کی تحقیقات کا حکم دیا۔

'ہماری کسی سے کوئی دُشمنی نہیں ہے'

ایک خاتون کے یوں بے دردی سے قتل کیے جانے پر بھیل برادی میں خاصا خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ لیکن دیا بھیل کے بیٹے سومر بھیل کا یہ مؤقف ہے کہ ان کی والدہ اور ان کے خاندان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔

واقعے کی ایف آئی آر سیکشن 302 کے تحت دیا بھیل کے بیٹے کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لی گئی ہے جس کے بعد تحقیقات میں تیزی آگئی۔

واقعے کے چند گھنٹوں کے بعد پولیس نے چھ سے سات گرفتاریاں کیں جن میں دیا بھیل کے خاندان کے کچھ افراد سمیت جادو ٹونے کرنے والے مرد جنہیں مقامی زبا ن میں (بھوپے)کہا جاتا ہے کو پولیس نے تحویل میں لے لیا ہے۔

پولیس اس کیس میں تفتیش سے میڈیا کو آگاہ نہیں کر رہی نہ ہی ان گرفتاریوں کے حوالے سے بات کر رہی ہے۔ تاہم سومر بھیل نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی والدہ کے قتل کے شبہے میں پولیس نے ان کے خاندان کے کچھ اہم افراد کو تحویل میں لے رکھا ہے۔

پانچ رُکنی جے آئی ٹی تشکیل

دیا کے قتل کے بعد پانچ رکنی جے آئی ٹی (جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم) تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی سنجھورو کے ڈی ایس پی جاوید احمد چانڈیو کر رہے ہیں۔ جے آئی ٹی کو اگلے 24 گھنٹو ں میں ڈی آئی جی سندھ کو ابتدائی رپورٹ پیش کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔

مقامی افراد کے مطابق دیا بھیل بیوہ ہونے کے باوجود اپنی گزر بسر خود محنت کر کے کیا کرتی تھیں۔ وہ کھیتوں میں کام کرتی تھیں اور کچھ مویشی بھی اُن کی ملکیت تھے۔ جس گھر میں وہ اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر تھیں وہ بھی ان کی ملکیت بتایا جارہا ہے۔

ان کا شادی شدہ بیٹا ان کے گھر کے نزدیک ہی اپنے خاندان کے ہمراہ رہتا ہے۔ اہلِ محلہ کا کہنا ہے کہ جس طرح سے دیا کو قتل کیا گیا انہوں نے نہ کبھی ایسا واقعہ پہلے سنا نہ دیکھا۔

اس اندوہناک قتل پر بلاول بھٹو کے حکم پر جمعے کو صوبائی وزیر برائے اقلیتی امورگیان چند ایسرانی دیا بھیل کے ورثا سے ملاقات کے لیے گاوں ڈپٹی پہنچے۔

اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے گیان چند کا کہنا تھا دیا بھیل کے قتل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ہم مقتولہ کے خاندان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مقتولہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد اسے جاری کر دیا جائے گا۔

انہوں نے ماضی میں ایک سال قبل سکھر میں ایک لڑکی کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس پر بھی صوبائی حکومت نے ایکشن لیا تھا اور مجرموں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا لیکن خاندان نے پھر صلح کر لی تھی۔ اس کیس میں بھی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

بھارت کا پاکستان سے اقلیتوں کے تحفظ کا مطالبہ

نئی دہلی میں وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم کے مطابق بھارت نے سندھ میں ہندو خاتون کے بہیمانہ قتل کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنائے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی سے جمعرات کو ان کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں خاتون کے مبینہ قتل سے متعلق سوال کیا گیا ۔

اُنہوں نے کہا کہ ہم نے اس کے بارے میں رپورٹس دیکھی ہیں۔ لیکن ہمیں اس کی تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ لیکن ہم پاکستان سے اپنا یہ مطالبہ دہراتے ہیں کہ وہ اقلیتوں کا تحفظ کرے جو کہ اس کی ذمے داری ہے۔

سندھ سے تعلق رکھنے والی پیپلزپارٹی کی سینیٹر کرشنا کماری نے بھی دیا بھیل کے گاؤں کا دورہ کر کے اس قتل کی مذمت کی ہے۔

ایک ٹویٹ میں اُن کا کہنا تھا کہ بیوہ دیا بھیل کا وحشیانہ انداز میں قتل کیا گیا۔ ان کی نعش کی حالت بہتر ابتر ہے۔


بھارتی وزارتِ خارجہ کے بیان پر صوبائی وزیر کا ردِعمل

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھارت کی جانب سے ہندو خاتون کے قتل اور پاکستان سے کیے گئے مطالبے پر کوئی ردِعمل نہیں دیا۔ تاہم پاکستان کا ماضی میں یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں جب کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

سندھ کے وزیر برائے اقلیتی اُمور گیان چند کا کہنا تھا کہ پاکستان اقلیتوں کے لیے سب سے محفوظ ملک ہے یہاں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ تحقیقات مکمل ہونے تک اس قتل کو مذہبی رنگ دینا مناسب نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سانگھڑ کے رہائشی عبدالخالق چانڈیو کا کہنا تھا کہ اس طرح کسی عورت کا قتل پہلی بار نہیں ہوا اس سے قبل بھی کنری، عمر کوٹ اور دیگر علاقوں میں غیرت کے نام پر متعدد عورتوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا ہے۔

اُن کے بقول ایسے واقعات محض ایک خبر کی شکل میں ہی سامنے آتے ہیں اور پھر دب جاتے ہیں، لیکن اس طرح کا لرزہ خیز قتل ہونا پہلی بار سنا ہے شاید تب ہی اسے بھارت نے بھی اتنی اہمیت دی ہے۔