بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے پاکستان پر اس کے زیرِ انتظام کشمیر کے عوام کو ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر میں شروع ہونے والا ترقی کا سفر اس وقت مکمل ہو گا جب ہم گلگت بلتستان پہنچیں گے۔
جمعرات کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع بڈگام میں بھارتی فوج کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ لداخ سمیت ریاست کے دونوں حصوں کی مجموعی ترقی اور جمہوریت کی بالا دستی کا ہدف اسی وقت مکمل ہوگا جب ہم گلگت اور بلتستان پہنچیں گے۔
'پورا جموں و کشمیر بھارت کا حصہ ہے'
راج ناتھ سنگھ نے فروری 1994 میں پاس کی گئی اُس قرارداد کا بھی حوالہ دیا جس میں ریاست جموں و کشمیر کو مکمل طور پر بھارت کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت اس قرارداد کے تحت اُن کے بقول پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی بازیابی کے وعدے پر بھی قائم ہے۔
اُنہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں نفرت کے بیج بو رہا ہے۔ وہاں کے لوگوں کو تمام بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے جس سے ہم بے خبر نہیں ہے۔
راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارت کا ہر شہری پاکستانی کشمیر کے لوگوں کے درد کو محسوس کرتا ہے، ہمیں وہاں کی صورتِ حال پر تشویش ہے۔
بھارتی وزیرِ دفاع کے اس بیان پر تاحال پاکستان کی جانب سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم ماضی میں ایسے الزامات کی پاکستان تردید کرتا رہا ہے۔
بھارتی وزیرِ دفاع نے مزید کہا کہ کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران اُن کے بقول جو دہشت گردی اور خون ریزی دیکھنے میں آئی اسے کئی لوگوں نے مذہب کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔
بھارتی فوج کی کشمیر میں آمد کی سالگرہ
راج ناتھ سنگھ بڈگام میں جس تقریب سے خطاب کررہے تھے وہ کشمیر میں بھارتی فوج کی آمد کی 75 ویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقد کی گئی تھی۔
بھارتی فوج کی سکھ رجمنٹ کا پہلا قافلہ 27 اکتوبر 1947کو ہوائی جہازوں کے ذریعے سرینگر کے ہوائی اڈے پر اُتارا گیا تھا جس کے ساتھ ہی ریاست جموں و کشمیر پرکنٹرول حاصل کرنے کے لیے پہلی جنگ کا آغاز ہوا تھا جو اس کی تقسیم پر منتج ہوئی۔
'مہاراجا کو الحاق کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا'
بھارت کا دعویٰ ہے کہ راجواڑے میں اس کی فوجیں اس کے مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے دستاویزِ الحاق پر دستخط کرنے کے بعد اور اُن کی استدعا پر پاکستان سے بھیجے گئے مسلح قبائلیوں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے بھیجی گئی تھیں۔
لیکن پاکستان اور کشمیر کی آزادی پسند سیاسی قیادت کا استدلال ہے کہ ایک مطلق العنان ہندو مہاراجہ کے پاس ایک مسلم اکثریتی ریاست کابھارت کے ساتھ الحاق کرنے کاکوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں تھا ۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت نے مہاراجہ کے نام نہاد پاکستانی قبائلی حملہ آوروں کو پیچھے ہٹانے کے لیے فوجی مدد کی درخواست کے بہانے جموں و کشمیر پر زبردستی قبضہ کیا۔
جمعرات کو جموں و کشمیر بالخصوص مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں حفاظتی انتظامات مزید سخت کردیے گئے ہیں۔ ماضی میں اس دن وادی میں ہڑتال کی جاتی تھی لیکن پانچ اگست کے بعد سے وادی میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں نہیں آئے۔
جمعرات کو استصواب ِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اپنے اس مؤقف پر قائم ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام مسئلہ کشمیر کے اہم اور بنیادی فریق ہیں۔
سرینگر سے جاری کیے گئے ایک بیان میں تنظیم کا کہنا تھا کہ "کُل جماعتی حریت کانفرنس نہ صرف اپنے اس اصولی مؤقف پر قائم ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام مسئلہ کشمیر کے اہم اور بنیادی فریق ہیں بلکہ تنازع کشمیر کو حل کرانے کے لیے پرعزم ہیں۔
بی جے پی نےفتح کا جشن منایا
ادھر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں نئی دہلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)اور ہم خیال جماعتوں اور گروپوں نے بھارتی فوج کی آمد کی سالگرہ کو 'خوشی اور فتح ' کے دن کے طور پر منایا اور اس سلسلے میں خاص طور پرجموں کے خطے میں جلسے جلوسوں کا اہتمام کیا گیا۔
ان جماعتوں کے لیڈروں کا اصرار ہے کہ جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق مکمل اور حتمی ہے۔بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ دو سال سے 'یومِ الحاق' کو سرکاری سطح پر مناتی ہے اور اس دن سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔