کراچی: مندر میں توڑ پھوڑ کے الزام میں گرفتار ملزم کا سات روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

پیر کو ایک شخص نے کراچی کے مندر میں گھس کر توڑ پھوڑ شروع کر دی تھی۔

پاکستان کے شہر کراچی میں مندر میں توڑ پھوڑ کرنے کے الزام میں گرفتار شخص کو سات روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے جب کہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کر دی گئی ہیں۔

کراچی کے علاقے نارائن پورہ میں پیر کو ایک شخص ہتھوڑے کے ہمراہ مندر میں داخل ہو گیا تھا جہاں اس نے مورتیوں اور دیگر اشیا کی توڑ پھوڑ شروع کر دی تھی۔

منگل کی صبح پولیس نے سخت حفاظتی انتظامات میں ملزم ولید کو جوڈیشل مجسٹریٹ ضلع جنوبی کی عدالت میں پیش کیا اور اس کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی استدعا کی۔

البتہ سرکاری وکیل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم کی جانب سے اقلیتی برادری کی عبادت گاہ پر حملے پر حکومت نے ملزم کے خلاف مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے بعد ملزم کو انسداد دہشت گردی کی منتظم عدالت کے جج کے سامنے پیش کیا گیا۔ جہاں عدالت نے پولیس کو واقعے کی ابتدائی تفتیش مکمل کرنے کے لیے سات روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا۔

واقعے کا مقدمہ عید گاہ تھانے میں درج کیا گیا ہے جس میں توہینِ مذہب اور املاک کو نقصان پہنچانے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مندر میں مورتیوں اور ہندوؤں کی دیگر مقدس اشیا کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق ملزم اچانک ہتھوڑا اٹھائے جوگ مایا مندر میں داخل ہوا اور مندر میں رکھی گئی مورتی کو توڑنے لگا۔ پوجا کرنے والی ایک خاتون کے شور مچانے پر وہاں اہلِ محلہ جمع ہوئے اور ملزم کو اسی وقت پکڑ لیا۔ جسے مندر سے باہر لے جا کر بھی اہل محلہ کی جانب سے زدوکوب بھی کیا گیا۔ اطلاع ملتے ہی پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری پہنچ گئی اور ملزم کو تحویل میں لے لیا گیا۔

ادھر پاکستان ہندو پنچایت کے جنرل سیکریٹری روی دوانی کا کہنا ہے کہ مندر پر حملے میں ایک ہی شخص ملوث تھا اور اب تک ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس کا انفرادی عمل تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ واقعے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اور اس حوالے سے حقائق منظرِ عام پر لا کر ملزم کو کڑی سزا دی جانی چاہیے۔ انہوں نے پولیس کی جانب سے بر وقت ایکشن لینے اور ملزم کو گرفتار کرنے کو بھی سراہا۔

مندر پر حملے میں ہندو برادری نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

'ہندو مذہب کی توہین کیسز میں اب تک کسی کو سزا نہیں ہوئی'

روی دوانی کے مطابق سندھ میں حالیہ عرصے میں اس واقعے کو چھوڑ کر اب تک تین ایسے واقعات ہو چکے ہیں جس میں مندر یا ہندوؤں کے نزدیک مقدس شخصیات کی توہین پر توہینِ مذہب کے مقدمات درج کیے گئے۔

اُن کے بقول 2019 میں گھوٹکی میں مندروں پر حملے کے علاوہ سندھ پولیس کی جانب سے تھرپارکر میں ہندوؤں کی مذہبی شخصیات کے حوالے سے توہین آمیز گفتگو پر مجبور کرنے والے ایک شخص کو گرفتار کر کے اس کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا۔

البتہ روی کا کہنا ہے کہ ان تمام واقعات میں اب تک کسی ایک بھی ملزم کو ان قوانین کے تحت سزا نہیں ہو سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر سے قانون کے مطابق نمٹے جو بین المذاہب ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ایسے واقعات دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بن سکیں۔

'ایسے واقعات بتاتے ہیں ملک میں انتہا پسندی کی جڑیں کتنی مضبوط ہیں'

انسانی حقوق کی کارکن اور انسانی حقوق کمیشن کی سابق شریک چیئرپرسن عظمیٰ نورانی کہتی ہیں کہ ایسے واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور نفرت کی جڑیں کس قدر گہری ہیں۔

اُن کے بقول بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے انتہا پسند عناصر کو ماضی میں ریاست کی آشیرباد رہی ہے اور اس کا خمیازہ قوم نے فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں بھگتا ہے۔

حکومتِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، تاہم بعض شر پسند عناصر ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جن کے خلاف قانون حرکت میں آتا ہے۔

عظمیٰ نورانی کے بقول ایسے واقعات میں انفرادی سطح پر کوئی ملوث ہو یا کوئی جتھہ ان سے نمٹنے کے لیے فوری اور شفاف کارروائی کی ضرورت ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایسے عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کے ذریعے ایک جانب اقلیتی برداری میں تحفظ اور مکمل مذہبی آزادی کا احساس پیدا ہو گا تو دوسری جانب انتہا پسند قوتوں کو طاقت ور پیغام جائے گا کہ ایسی حرکتیں ریاستی اصولوں کے خلاف تصور کی جائیں گی۔

ادھر صوبائی وزیر اقلیتی امور گیان چند ایسرانی نے بھی مندر کا دورہ کیا اور کہا ہے کہ واقعے میں ملوث ملزم گرفتار ہو چکا ہے جب کہ مقدمے میں دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کیس کی پیروی کر رہی ہے اور ملزم کو سخت سے سخت سزا دلوائی جائے گی۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ مندر میں ہونے والے نقصان کا 24 گھنٹے میں ازالہ کیا جائے گا۔