عراق کی پارلیمان نے کرد سیاست دان برہم احمد صالح کو ملک کا نیا صدر منتخب کرلیا ہے جنہوں نے اپنے انتخاب کے فوراً بعد شیعہ اتحاد کے نامزد امیدوار عادل عبدالمہدی کو حکومت بنانے کی دعوت دے دی ہے۔
ملک کے دونوں بڑے عہدوں پر تقرریوں کے بعد عراق میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری سیاسی بحران ختم ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔
عراق میں مئی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بعد سے سیاسی بحران جاری تھا اور شیعہ اکثریتی جماعتیں وزیرِ اعظم کے نام پر اختلافات کا شکار تھیں۔
عراق میں 2003ء میں سابق صدر صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے حکومت میں اختیارات ملک کے تینوں بڑے نسلی اور مذہبی گروہوں کے مابین تقسیم ہیں۔
اختیارات کی اس تقسیم کے تحت ملک کا صدر کرد النسل ہوتا ہے جب کہ وزیرِ اعظم کا طاقت ور ترین عہدہ شیعہ جماعتوں کے امیدوار کو سونپا جاتا ہے۔ پارلیمان کے اسپیکر کا تعلق سنی جماعتوں سے ہوتا ہے۔
منگل کو پارلیمان کے اجلاس میں ایوان کی بھاری اکثریت نے 58 سالہ برہم صالح کو ملک کا نواں صدر منتخب کرلیا۔
برہم اس سے قبل عراقی کردستان کی نیم خودمختار حکومت کے وزیرِ اعظم اور عراق کی وفاقی حکومت میں نائب وزیرِ اعظم رہ چکے ہیں۔
صدر صالح نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے دو گھنٹے کے اندر ہی پارلیمان کی شیعہ جماعتوں کے متفقہ امیدوار عادل عبدالمہدی کو حکومت بنانے کی دعوت دے ڈالی۔
کئی ماہ سے جاری مشاورت اور رابطوں کے بعد نئی پارلیمان میں شیعہ جماعتوں کے دونوں بڑے اتحادوں نے متفقہ طور پر عادل عبدالمہدی کو وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا تھا۔
انہیں شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر اور موجودہ وزیرِ اعظم حیدر العبادی کی جماعتوں کے اتحاد 'اصلاح' کے علاوہ ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا رہنما ہادی العامری اور سابق وزیرِ اعظم نوری المالکی کے سیاسی اتحاد 'بِنا' کی حمایت بھی حاصل ہے۔
شیعہ جماعتوں کے یہ دونوں اتحاد مئی میں ہونے والے انتخاب کے بعد سے پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے اور حکومت بنانے کے دعویدار تھے جس کی وجہ سے سیاسی عمل کئی ماہ تک تعطل کا شکار رہا۔
العامری اور المالکی عراق میں ایران کے نمایاں ترین اتحادی سمجھے جاتے ہیں جب کہ حیدر العبادی کو امریکہ کا پسندیدہ سیاست دان سمجھا جاتا ہے۔ مقتدیٰ الصدر کی شناخت ایک قوم پرست عراقی رہنما کی ہے جو ملک میں ایران اور امریکہ دونوں کی مداخلت کے خلاف ہیں۔
نامزد وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی کی عمر 76 سال ہے اور وہ پیشے کے اعتبار سے ایک معیشت دان ہیں۔ ان کے والد ایک معروف شیعہ عالمِ دین تھےجو 1958ء میں فوجی بغاوت سے قبل عراق میں قائم بادشاہت کے دور میں وزیر بھی رہے تھے۔
عراق کے آئین کے تحت اب عبدالمہدی کے پاس اپنی کابینہ تشکیل دینے اور پارلیمان سے اس کی توثیق کے لیے 30 دن کا وقت ہے۔