حالیہ دنوں میں لبنان سے حزب اللہ نے اسرائیل پر گولے فائر کیے ہیں جس کے جواب میں اسرائیلی طیاروں نے حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ حزب اللہ کے پاس کتنی عسکری صلاحیت موجود ہے اور آیالبنان کی یہ شیعہ تنظیم واقعتاً اسرائیل کے خلاف نیا محاذ کھولنے کی کوشش کررہی ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان موجودہ جنگ 7 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی جب حماس کے 1500 عسکریت پسندوں نے اسرائیل کے اندر گھس کر اچانک حملے میں 1400 سے زیادہ افراد کو ہلاک کر دیا اور 200 کے لگ بھگ کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ہلاک ہونے والوں کی اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
اس کے بعد سے اسرائیلی جوابی کارروائی میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق ،پانچ ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔
حماس کی طرح لبنان میں قائم عسکریت پسند گروپ حزب اللہ بھی سرحد پار سے اسرائیل پر راکٹ داغتاہے اور فائرنگ کرتا ہے۔ اکثر اوقات حزب اللہ کی جانب سے یہ حملے حماس کی حمایت اور مدد کے لیے ہوتے ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیل کی شام اور لبنان کی سرحد پر کارروائیاں، جنگ پھیلنے کے خدشات میں اضافہحزب اللہ حماس کی حمایت کیوں کرتی ہے؟
حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سرحد کے آرپار ہونے والی لڑائی نسبتاً کنٹرول میں ہے اور ان واقعات میں اسرائیل اور غزہ کی طرح زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان حملوں میں لبنان میں لگ بھگ 41 افراد مارے گئے ہیں جن میں زیادہ تر عسکریت پسند تھے۔ تاہم ہلاک ہونے والوں میں چار عام شہری بھی شامل ہیں جن میں سے ایک رائٹرز کےصحافی عصام عبداللہ ہیں۔
اسرائیل میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد چار ہے جن میں سے تین فوجی ہیں۔
حزب اللہ کاقیام اور مقاصد
حزب اللہ گروپ جنوبی لبنان کو اسرائیل کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے 1980 کے عشرے میں قائم کیا گیا تھا۔
حزب اللہ ایک شیعہ عسکری تنظیم ہے جسے زیادہ تر ایران سے مدد ملتی ہے جب کہ حماس سنی مسلک کا عسکری گروپ ہے اور اسے بھی ایران کی جانب سے مدد ملتی ہے۔
SEE ALSO: لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کتنی طاقت ور ہے؟حزب اللہ اور حماس طویل عرصے سے اسرائیل کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کررہے ہیں جن میں ایران کی طاقت ور اسلامی انقلابی گارڈ کی ذیلی تنظیم قدس فورس بھی شامل ہوتی رہتی ہے۔
یہ بنیادی طور پر اسرائیل کے خلاف ایک مزاحمتی گروپ کا حصہ ہیں جس میں لبنانی، فلسطینی، شامی اور ایرانی شامل ہیں ۔
سن 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک بڑا خونی تصادم ہوا تھا جس میں لبنان کے 1200 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے جو زیادہ تر عام شہری تھے ۔ جب کہ اسرائیل کی جانب ہلاکتوں کی تعداد 160 تھی جن میں اکثریت فوجیوں کی تھی۔
کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے تجزیہ کار مائیکل ینگ کہتے ہیں کہ حزب اللہ تنظیم حماس کی حمایت اس لیے کرتی ہے کہ یہ دونوں اسرائیل کے خلاف ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسرا یہ کہ فلسطین کا مسئلہ خطے کے مسلمانوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے اور چونکہ حماس کا تعلق فلسطین سے ہے اس لیےحزب اللہ اور ایران اس کی حمایت کرتے ہیں۔
SEE ALSO: حزب اللہ نے لبنانی سرحد پر اسرائیل کے متعدد نگران کیمرے تباہ کردیےحزب اللہ کتنی طاقت ور ہے؟
حزب اللہ لبنان کا سب سے نمایاں سیاسی اور فوجی گروپ ہے۔ اس کے پاس گائیڈڈ میزائلوں سمیت ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حزب اللہ لبنان کی فوج سے زیادہ طاقت ور ہے۔
ایران حزب اللہ کو مالی اور فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔ یہ گروپ برسوں سے شام میں اپنے حلیف شامی صدر بشار الأسد کی حمایت میں لڑ رہا ہےاور اس نے شام میں قابل ذکر زمینی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔
سن 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان لڑائی کے بعد سے لبنان کی اس جنوبی سرحد پر حزب اللہ کی کوئی واضح موجودگی نہیں۔اس کی بجائے وہاں اقوام متحدہ کے امن دستے تعینات ہیں۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں حزب اللہ کے ٹھکانے اور سرنگیں اب بھی موجود ہیں۔
جہاں تک حزب اللہ کی عددی قوت کا تعلق ہے تو 2021 میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ ان کے گروپ میں ایک لاکھ مسلح عسکریت پسند مومود ہیں اور ان کی تحریک کو لبنان میں وسیع تر عوامی حمایت حاصل ہے۔
نصر اللہ کا دعوی ٰ ہے کہ ان کے گروپ کے پاس موجود ہتھیار اسرائیل کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اگست میں انہوں نے کہا تھا کہ حزب اللہ کو اسرائیلی ایئرپورٹس، فضائی فوجی مراکز، بجلی گھروں اور جوہری تنصیب کو نشانہ بنانے کے لیے درستگی کے ساتھ مار کرنے والے معدودے چند میزائل درکار ہیں۔
SEE ALSO: کیا ایران نے اسرائیل پر حملے میں حماس کی مدد کی؟کیا حزب اللہ جنگ میں شامل ہو جائے گی؟
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ جنگ چھیڑ ی تو یہ اس کی زندگی کی بڑی غلطی ہو گی۔
لبنان میں قائم امریکن یونیورسٹی کے سیاسی تجزیہ کار عماد سلامی کا کہنا ہے کہ حزب اللہ گروپ اپنے حملوں میں اضافہ کر سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ نہیں چاہے گا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازع سے دنیا کی توجہ ہٹ جائے۔
کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے ینگ کہتے ہیں حزب اللہ کی سرگرمیوں کا مقصد غزہ پر اسرائیلی فوج کے دباؤ میں کمی لانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حزب اللہ ایک ایسی صورت حال پیدا کرنا چاہتا ہے جس سے علاقے میں جنگ کا دائرہ پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو جائے اور اقوام متحدہ بلکہ شاید اس بار امریکہ کی جانب سے جنگ بندی پر زور دیا جائے۔
ینگ اور سلامی دونوں کے اس بارے میں شکوک و شہبات ہیں کہ ایران حماس پر دباؤ میں کمی لانے کے لیے حزب اللہ کو مکمل طور پر اسرائیل کے ساتھ لڑائی میں جانے دے گا ۔
SEE ALSO: ہم منصوبے کے مطابق لڑائی میں حصہ لیں گے،اور جب کارروائی کا وقت آئے گااسے انجام دیں گے: حزب اللہینگ کہتے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ ایران حز ب اللہ کو قربان کرنا چاہے گا۔میں نہیں سمجھتا کہ وہ اسے ضروری خیال کرتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حزب اللہ اس جنگ میں اپنی شرکت ایک خاص حد کے اندر رکھے گا۔
(اس تحریر کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)