پاکستان میں آزادیٔ صحافت اور اظہارِ رائے کی آزادی کا "دائرہ تنگ" ہونے پر سیاسی رہنما، صحافی اور صحافتی تنظیموں سمیت مختلف حلقے آواز اٹھا رہے ہیں۔ اب سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی آزادیٔ اظہارِ رائے اور میڈیا کی آزادی کے لیے آواز بلند کی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ججز اور فورسز سمیت دیگر آئینی عہدے دار اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہیں۔ اگر اس حلف پر مکمل طور پر عمل کیا جاتا تو آج ملک کے حالات قدرے مختلف ہوتے۔
اسلام آباد میں سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کی تقریبِ حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صحافت کبھی کبھی انصاف فراہم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 19 ہر شخص کو آزادیٔ اظہار رائے دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین تمام بنیادی حقوق فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ صحافی گورننس میں خرابیوں کی نشان دہی کر کے احتساب کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میڈیا کو کنٹرول کرنے اور یک طرفہ خبریں چلانے کی اجازت نہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے ایک کیس میں قرار دیا ہے کہ پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) آزاد ادارے کے طور پر اپنی ساکھ قائم نہیں کر سکا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ وزیرِ اعظم کے قوم سے خطاب اور بطور پارٹی لیڈر خطاب کے درمیان فرق واضح کر چکی ہے۔ ہائی کورٹ فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ وزیرِ اعظم بطورِ پارٹی لیڈر تقریر کرے تو اپوزیشن کو بھی اتنی ہی کوریج کا حق ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا کی آزادی بنیادی حق ہے جس کی خلاف ورزی آئین کے خلاف ہے۔ میڈیا کی آزادی روکنے والا عوام اور آئین کا دشمن ہو گا جس کا احتساب ضروری ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے بقول کرپشن اور بیڈ گورننس کی نشان دہی کے لیے آزاد میڈیا ضروری ہے۔ سال 2018 میں میڈیا کی آزادی میں پاکستان 180 میں سے 139 ویں نمبر پر تھا۔ سال 2019 میں پاکستان کی رینکنگ 142 اور پھر 145 تک گر گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بعد ازاں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو بھی کی اور ان کے سوالات کے ہلکے پھلکے جواب بھی دیے۔
میڈیا مخالف پالیسیوں کو ترک کیا جائے: پی ایف یو جے کا مطالبہ
پاکستان میں صحافیوں کی ملک گیر تنظیم 'پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس' (پی ایف یو جے) نے ملک کی صحافتی صنعت کی زبوں حالی کا براہِ راست ذمّہ دار حکومت کو ٹھیرایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ میڈیا مخالف پالیسیوں کو ترک کیا جائے۔
پی ایف یو جے کی 'فیڈرل ایگزیکٹو کمیٹی' کے کوئٹہ میں ہونے والے تین روزہ اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ میڈیا کو اپنے تابع کرنے کے لیے حکومت عتابی اقدامات سے کام لے رہی ہے۔
پی ایف یو جے کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے صحافت مخالف اپنی پالیسیوں اور اقدامات کو ترک نہ کیا تو ملک گیر احتجاج کی کال دیں گے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور میڈیا مخالف قوتوں کی جانب سے آزادیٔ اظہار کے لیے زمین تنگ کی جا رہی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ "میڈیا اداروں کے لیے مالی مشکلات پیدا کرنے کے لیے حکومتی سطح پر مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ غیر اعلانیہ سینسر شپ کے نفاذ سے لے کر صحافیوں کے اغوا جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے آزاد میڈیا کی آواز دبائی جا رہی ہے۔"
ادھر پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کی جانب سے بارہا کہا جاتا رہا ہے کہ وہ آزادیٔ اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان بھی یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں میڈیا مکمل آزاد ہے۔
دوسری جانب عالمی صحافتی تنظیمیں عرصہ دراز سے پاکستان کو صحافت کے لیے خطرناک ملک قرار دے رہی ہیں۔ اگرچہ گزشتہ برسوں میں صحافیوں کو درپیش خطرات کی نوعیت تبدیل ہوتی رہی ہے۔
رواں ماہ اقوامِ متحدہ نے بھی پاکستان میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں پر حملوں اور تشدد کی دھمکیوں کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
اس سے قبل صحافیوں کی فلاح کے لیے عالمی سطح پر کام کرنے والی ایک تنظیم 'رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز' نے پاکستان میں میڈیا پر پابندیوں اور سینسر شپ کے خلاف وزیرِ اعظم عمران خان کو گزشتہ برس جولائی میں ایک کھلا خط لکھا تھا جس میں حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید کی گئی تھی۔
پی ایف یو جے کے اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے مالی مشکلات کے ساتھ میڈیا کے لیے سرخ لکیروں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے تحت وہ خود ساختہ سینسر شپ پر مجبور ہو گئے ہیں۔
پی ایف یو جے کا کہنا ہے کہ میڈیا پر پابندیوں اور سیلف سینسر شپ کے حالیہ اقدامات ماضی کے آمرانہ ادوارِ حکومت میں بھی دیکھنے میں نہیں آئے۔
اسی معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے کہا ہے کہ صحافت کا بحران بہت سنجیدہ ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں اب تک اس صنعت سے وابستہ آٹھ ہزار لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر حکومت صحافت دوست اقدامات نہیں کرتی تو مسلسل بحران کی صورتِ حال کا سامنا کرنے والی صحافتی صنعت مزید زبوں حالی کا شکار ہو گی۔
ناصر زیدی نے مطالبہ کیا کہ حکومت صحافت پر عائد "اعلانیہ اور غیر اعلانیہ پابندیاں" ختم کرے۔
لیکن پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان حکومت کے سینسر شپ میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔ حال ہی میں 'الجزیرہ ٹی وی' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیرِ اعظم عمران خان نے اس بات کی نفی کی تھی کہ پاکستان میں صحافتی پابندیاں بڑھ رہی ہیں۔
ملک میں آزادیٔ اظہار سلب کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ انہیں شواہد دکھائے جائیں کہ پاکستان میں آزادیٔ اظہارِ رائے پر کیسے پابندی لگائی جا رہی ہے۔
پی ایف یو جے کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی اس بات کا اعلانیہ اظہار کر رہی ہیں کہ ملک میں جمہوریت، آئین اور صحافت خطرے میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان صحافت کے حوالے سے آزاد ممالک کی درجہ بندی میں گر رہا ہے اور اگر حکومت نے سینسر شپ ختم نہ کی تو وہ حکومت کی میڈیا پالیسی کے خلاف احتجاج پر مجبور ہوں گے۔
پی ایف یو جے نے اپنے اجلاس میں خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو مختلف ذرائع سے اور بالخصوص آن لائن ہراساں کیے جانے کی بھی مذمت کی۔
صحافیوں کی تنظیم نے اعلامیے میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ 'پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی' (پیمرا) اور 'پریس کونسل آف پاکستان' (پی سی پی) کو وزارتِ اطلاعات سے آزاد کیا جائے تاکہ یہ ادارے خود مختار ریگولیٹر کا کردار ادا کر سکیں۔
اعلامیے میں حکومت سے اخباری و ٹی وی صنعت کی واجب الادا رقوم کی فوری ادائیگی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔