پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن کہتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کو ضم کرنے کے اقدام پر دنیا کا ردعمل ظاہر نہ کرنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔
گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن نے کہا کہ اس معاملے پر پاکستان کی حکمت عملی امید افزا نہیں ہے۔ اگر حکومت نے مسئلہ کشمیر کو پس پشت رکھنا ہے تو گلگت بلتستان کو مزید محروم نہ رکھا جائے اور علیحدہ حیثیت ختم کرکے پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے باعث گلگت بلتستان کے عوام 70 سال سے اپنے آئینی حق سے محروم ہیں جب کہ تنازع کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے کو قومی دھارے میں شامل نہیں کیا جا سکا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے عوام آئینی طور پر پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں جب کہ اب خطے کی نئی صورت حال میں وفاق کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ کشمیر پر پاکستان کی گرفت کمزرو ہوتی جا رہی ہے۔ پارلیمنٹ سے مشترکہ قرارداد کی منظوری کے علاوہ پاکستان اس معاملے کو کسی جگہ نہیں اٹھا سکا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھارت کشمیر کو مذاکرات میں متنازع مانتا تھا لیکن ہم سمجھوتہ کرتے کرتے اس جگہ پہنچ گئے ہیں کہ اب انہوں نے (کشمیر کی) خصوصی حیثیت ہی ختم کر دی ہے۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے کہا کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کو ضم کیے جانے کے بعد پاکستان کو اپنے زیر انتظام کشمیر اور گلگت کی حیثیت سے متعلق بھی ایسا ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے یا پھر عوام کو امید دلائی جائے کہ مسئلہ کشمیر ابھی ختم نہیں ہوا، زندہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے البتہ مسئلہ کشمیر کا حصہ ضرور ہے۔
حفیظ الرحمٰن نے بتایا کہ گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر سے مشروط کرکے اگر عبوری آئینی صوبہ بنایا جائے تو اس سے مسئلہ کشمیر متاثر نہیں ہوگا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ قرار دینے کے فیصلے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے حفیظ الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدالت کے اس فیصلے میں بہت ساری قباحتیں ہیں اور وفاقی حکومت نے ان سے اتفاق کیا تھا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی جائے گی۔
خیال رہے کہ گلگت بلتستان انتظامی طور پر صوبہ ہے تاہم آئینی اعتبار سے اسے صوبہ بنانے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا حل طلب تنازع رکاوٹ ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور آئینی ماہرین کا ماننا ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی طور پر الگ صوبہ قرار دینے سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف کمزور ہو سکتا ہے۔
'گلگت کی جغرافیائی حیثیت کشمیر سے اہم ہے'
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے گلگت بلتستان کے عوام کو بار بار مخاطب کیے جانے پر وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن کہتے ہیں کہ نریندر مودی گلگت بلتستان کی آئینی محرومیوں کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو متنازع بنانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وسطی ایشیا، چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے اور سی پیک کا داخلی راستہ (گیٹ وے) ہے۔
حفیظ الرحمٰن کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کشمیر سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ کشمیر سے آنے والا زیادہ تر پانی بھارت نے ڈیم بنا کر روک دیا ہے جب کہ پاکستان کی پانی کی زیادہ تر ضرورت اب گلگت بلتستان سے بہنے والے دریاؤں سے پوری ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نریندر مودی گلگت بلتستان کی تعمیر اور ترقی نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اب کارگل اور لداخ کے لوگ بھی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں عارضی حد بندی کے اس طرف آنے دیا جائے کیونکہ یہاں تعلیم، صحت اور مواصلات کی بہتر سہولیات میسر ہیں۔
'سی پیک منصوبے سست ہوئے'
گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن کہتے ہیں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سی پیک کے جاری منصوبے سست روی کا شکار ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے منصوبوں کی سست روی کی وجہ موجودہ حکومت کی عدم توجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کی بدولت گوادر پورٹ سے چین کے ساتھ سرحدی گزرگاہ خنجراب کا فاصلہ صرف تین دن کا ہو گیا ہے جو کہ پہلے نو دن میں طے کیا جاتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ فوج آج بھی اسی طرح سی پیک کی حمایت کر رہی ہے جیسے پچھلے دور میں تھی اور امید ہے کہ وہ حکومت کی توجہ اس جانب راغب کرائے گے۔
'سیاحت میں پاکستان کا نام گلگت کی وجہ سے ہے'
سیاحت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے حفیظ الرحمٰن نے کہا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا چہرہ ہے اور دنیا میں سیاحت کے حوالے سے پاکستان کا ذکر اسی خوبصورت علاقے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ وفاقی حکومت اور وزیر اعظم ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے کاٖفی زور دے رہے ہیں لیکن گلگت بلتستان کے بنیادی مسائل کے حل کے بغیر یہاں سیاحت کا فروغ ممکن نہیں ہے۔
ان کے مطابق گلگت بلتستان میں موسمیاتی سیاحت ہے اور 12 ماہ زمینی راستوں کی رسائی اور 24 گھنٹے بجلی اور گیس کی فراہمی کے بغیر کوئی کاروباری گروپ یہاں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہے۔
وزیر اعلی نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں مذہبی سیاحت کو بھی فروغ دے رہے ہیں اور رواں سال شمالی کوریا سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد بدھ مت سیاحوں نے اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے آنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی حکومت ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے کوشاں ہے اور اس سلسلے میں گذشتہ سال نئی ویزا پالیسی کا آغاز بھی کیا گیا ہے۔
'کرتار پور کی طرح کرگل اسکردو راہداری کھولی جائے'
وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن کہتے ہیں کہ اسکردو اور لداخ کے علاقوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پانچ ہزار سے زائد خاندان گذشتہ 70 سال سے منقسم ہیں۔ ان خاندانوں کے آپس میں ملنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
انہوں نے سکھ یاتریوں کے لیے حال ہی میں کھولی گئی کرتارپور راہداری کو خوش آئند قدم قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی ترک کرے اور اسکردو و لداخ کے ان منقسم خاندانوں کو ملنے کا موقع فراہم کرے جو کہ بنیادی انسانی حقوق کا تقاضہ ہے۔
وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن نے بتایا کہ پاکستان کی حکومت جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی تمام روایتی راہداریوں کو کھلا رکھنا چاہتی ہے تاہم بھارت کی رضامندی کے بغیر یہ اقدام یک طرفہ کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر سرینگر، مظفر آباد آمد و رفت ہوسکتی ہے، کرتارپور راہداری کھل سکتی ہے جو کہ اچھی بات ہے تو گلگت بلتستان کے منقسم خاندان 70 سال بعد بھی اپنے رشتہ داروں سے ملنے سے محروم کیوں ہیں۔