پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت فوج کے سربراہ کی تقرری کے معاملے میں کسی کے دباؤ میں آ کر کوئی فیصلہ نہیں کرے گی اور آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے بیان پر ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان کے چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری سے متعلق متنازع بیان پر کسی قانونی کارروائی سے قبل ان کے اس بیان کی تحقیقات کی جائیں گی۔
خواجہ آصف نے یہ نہیں بتایا کہ عمران خان کے بیان کی تحقیقات کون کرے گا? البتہ اُنہوں نے واضح کیا کہ سابق وزیرِ اعظم کو اس معاملے میں کوئی چھوٹ نہیں دی جائے گی۔
خیال رہے کہ اتوار کو فیصل آباد میں جلسے سے خطاب میں عمران خان نے حکمران اتحاد کے رہنماؤں نواز شریف اور آصف زرداری پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ انتخابات اس وجہ سے نہیں کرا رہے کیوں کہ نومبر میں نئے آرمی چیف کا تقرر ہونا ہے۔عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ یہ دونوں اپنا پسندیدہ آرمی چیف لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم کو اس بیان پر سیاسی اور عسکری حلقوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور فوج کے ترجمان نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ فوج میں بھی عمران خان کے اس "انتہائی غیر ضروری بیان" پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
انٹرویو میں نئے آرمی چیف کی تقرر سے متعلق ایک سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ اس تقرری میں ابھی تین ماہ باقی ہیں اور حکومت اس ضمن میں جلد بازی میں فیصلہ کرے گی اور نہ ہی کسی کے دباؤ میں آکر آرمی چیف کا تقرر کیا جائے گا۔
اس سوال پر کہ تقرری میں تاخیر سے یہ معاملہ مزید متنازع نہیں ہو جائے گا؟ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر ادارے کا تقدس اور وقار بحال رکھنا ان کی حکومت کے لیے مقدم ہے۔
'آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے کو متنازع نہیں ہونے دیں گے'
خواجہ آصف نے کہا کہ "اگر کوئی شخص ادارے کا وقار مجروح کرنے کی کوشش کررہا ہے تو ہمیں اس کے دباؤ میں آکر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جو روایتی طور پر غلط ہو۔ اس لیے جلد بازی کی کوئی ایسی ضرورت نہیں ہے۔"
وزیرِ دفاع نے کہا کہ "آپ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کوئی ایک واقعہ بتائیں کہ دو تین ماہ یا ایک ماہ پہلے بھی کسی آرمی چیف کی تقرری ہوئی ہو۔"
خواجہ آصف کے بقول وہ ماضی میں بھی بطور وزیرِ دفاع دو مرتبہ آرمی چیف کی تقرری کے عمل کا حصہ رہے ہیں اور آرمی چیف کی سبک دوشی سے چند روز قبل ہی ان کے جانشین کے نام کا اعلان کیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتیاں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے دورِ حکومت میں ہوئی تھیں اور خواجہ آصف دونوں مواقع پر وزیرِ دفاع تھے۔
انٹرویو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تقرری کے عمل کو متنازع بنانا کسی صورت قوم اور ملک کی خدمت نہیں بلکہ وہ اسے دشمنی سمجھتے ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ فوج کے سربراہ کی تقرری کا طریقۂ کار آئین میں درج ہے جس کے تحت فوج کی جانب سےوزیرِ اعظم کے پاس چار یا پانچ سینئر جنرلز کے نام آتے ہیں جن میں سے وزیرِ اعظم کسی ایک کا تقرر کرتے ہیں۔
کیا اتحادی حکومت سے مشاورت ہو گی؟
آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ اتحادی حکومت میں ہوتے ہوئے لازم ہوتا ہے کہ اہم فیصلوں میں مشاورت کی جائے۔ یقینی طور پر فوج کی جانب سے سامنے آنے والے ناموں کو اتحادی رہنماؤں کے سامنے بھی رکھا جائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس عمل میں حکومت اصولوں سے انحراف نہیں کرے گی اور پہلے سے وضع کردہ قواعد اور قانون کے مطابق ہی فیصلہ کیا جائے گا۔
اس سوال پر کہ کیا فوج سے نئے سربراہ کی تقرری کے لیے نام مانگ لیے گئے ہیں؟ خواجہ آصف نے کہا کہ " ابھی دریا دس کوس دور ہے تو شلوار پہلے ہی اونچی کر لیں کہ بھیگ نہ جائے؟"
'جنرل باجوہ کی مدت میں توسیع پر بات کرنا قبل از وقت ہے'
اس سوال پر کہ غیر معمولی حالات میں کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی جا سکتی ہے? خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ملکی دفاع کے تناظر میں پاکستان کو پچھلے 20 برس سے غیر معمولی حالات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان غیر یقینی حالات میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی تقرریاں ہوتی رہی ہیں۔
البتہ ان کے بقول اس وقت ملک میں سیاسی اور معاشی حالات سازگار نہیں لیکن دفاعی ادارے کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو قطعی طور پر غیر معمولی حالات نہیں ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ فوج کے سربراہ کی تقرری میں میڈیا کی دلچسپی بھی بڑھ گئی ہے اور اسے موضوعِ بحث بنا رکھا ہے اور عمران خان بھی اس پر عوامی سطح پر تبصرے کررہے ہیں۔
جنرل باجوہ کی مدت میں توسیع کے امکان پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وقت آنے پر اس بارے میں بحث کی جاسکتی ہے۔ ابھی یہ بات قبل از وقت اور غیر ضروری ہے۔
'امریکی ڈرون پاکستانی سرزمین سے نہیں اڑے'
وزیرِ دفاع نے ایک بار پھر پاکستان کا یہ مؤقف دہرایا کہ افغانستان میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری پر کیے جانے والے امریکی ڈرون حملے میں پاکستان کی سرزمین قطعی طور پر استعمال نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا سے قبل پاکستان کی فضائی اور زمینی راستے استعمال کیے جاتے رہے ہیں لیکن فی الحال واشنگٹن کے ساتھ اسلام آباد کا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان خلفشار کا شکار افغانستان میں استحکام چاہتا ہے اور اس کے لیے پڑوسی ملک کو ہر ممکن معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔
'پاکستانی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے'
افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد نے حال ہی میں الزام عائد کیا تھا کہ امریکی ڈرونز ایک ہمسایہ ملک کے راستے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں۔
ان کے اس بیان سے متعلق سوال پر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ افغان وزیرِ دفاع نے اپنے بیان میں کسی ملک کا نام نہیں لیا لہذا وہ اس بارے قیاس آرائی نہیں کرسکتے۔ البتہ پاکستان کی پالیسی واضح ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔
خواجہ آصف نے واضح کیا کہ امریکی ڈرونز کے پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے سے متعلق الزام پر طالبان حکومت نے اسلام آباد کے ساتھ باقاعدہ طور پر کوئی شکایت نہیں کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے مفادات مشترک ہیں اور دونوں ہمسایہ ملکوں کو بھائی چارے کے ساتھ باہمی مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا جو کہ خطے کے لیے بھی مفید ہے۔
کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات میں افغان طالبان کے کردار پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والی بات چیت اگر کسی منطقی انجام تک پہنچتی ہے تو اس میں افغان طالبان کا کردار بھی ہوگا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس ضمن میں افغان طالبان کا کردار مثبت رہے گا۔