عورت مارچ کے منتظمین نے لاہور انتظامیہ کی جانب سے ریلی نکالنے کی اجازت نہ ملنے پر ہائی کورٹ سے رُجوع کر لیا ہے۔
منتظمین نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ کوئی بھی شہری اپنے حق کے لیے پرامن طور پر آواز اُٹھا سکتا ہے جس کی اجازت سے آئینِ پاکستان بھی دیتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے عورت مارچ کے انعقاد پر پابندی لگا دی ہے، لہذٰا عدالت انتظامیہ کو حکم جاری کرے کہ وہ عورت مارچ کے پرامن انعقاد کی اجازت دے اور سیکیورٹی بھی فراہم کرے۔
منتظمین کے مطابق اُنہوں نے ہر سال کی طرح اس برس بھی لاہور کی ضلعی انتظامیہ سے ریلی نکالنے کی اجازت طلب کی جس کے تحت لاہور کے ناصر باغ میں تقریب کے بعد استنبول چوک تک مختصر ریلی نکالنے کا پروگرام تھا۔ لیکن ڈپٹی کمشنر نے یہ درخواست رد کر دی۔
عورت مارچ کی انتظامیہ میں شامل ایک رُکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لاہور کی خاتون ڈپٹی کمشنر رافعہ حیدر سے اُن کی بملاقات ہوئی جس میں اُنہوں نے زبانی اجازت دی، لیکن بعدازاں تحریری طور پر ریلی نکالنے کی درخواست مسترد کر دی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ہر برس خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کا معاملہ تنازع کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور یہ معاملہ پہلے بھی عدالت میں جاتا رہا ہے۔ گزشتہ برس عورت مارچ کے شرکا پر توہینِ مذہب کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔
ضلعی انتظامیہ کا مؤقف
وائس آف امریکہ نے اس معاملے پر ڈپٹی کمشنر لاہور رافعہ حیدر سے رابطے کی کوشش کی، لیکن اُنہوں نے گفتگو سے گریز کیا۔
لیکن لاہور کی ضلعی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر وہ ریلی کی اجازت نہیں دے سکتے۔
مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عوام الناس اور خاص طور پر جماعتِ اسلامی کی خواتین ونگ کی جانب سے عورت مارچ کے خلاف ایک تقریب کا اعلان کیا گیا ہے جس کے باعث دونوں گروہوں میں تصادم کا خطرہ ہے۔ اِس لیے ضلعی انتظامیہ ایسی کسی ریلی کو اجازت نہیں دے رہی۔
عورت مارچ ریلی کی اجازت نہ ملنے پر پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ضلع انتظامیہ کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے افسوس ناک قرار دیا۔
عورت مارچ منتظمین کی جانب سے جاری کردہ مراسلے کے مطابق اس سال یوم خواتین کا مقصد “بحران کے وقت میں فیمینزم” ہے جس کے تین نکات ہیں جن میں موسمیاتی انصاف، معاشی انصاف اور سب کی سلامتی اور تحفظ شامل ہیں۔
پاکستان میں خواتین کے حوالے سے اعدادوشمار کیا بتاتے ہیں؟
پاکستان میں خواتین کے حقوق کی صورتِ حال کا اندازہ صرف اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم کی عالمی صنفی عدم مساوات کی سال 2021 کی رینکنگ میں 156 ممالک میں پاکستان کا نمبر 153 ہے۔
پاکستان ہیلتھ اینڈ ڈیموگرافک سروے کے مطابق پندرہ سے 39 سال تک کی شادی شدہ خواتین میں 28 فی صد خواتین کے مطابق وہ اپنی شادی شدہ زندگی کے دوران کبھی نہ کبھی تشدد کا شکار ہو چکی ہیں جب کہ مردوں کے رویے اور صنفی برابری پر ہونے والے بین الاقوامی سروے میں 59 فی صد پاکستانی خواتین کا کہنا تھا کہ وہ اپنی شادی شدہ زندگی میں تشدد کا شکار ہو چکی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان ڈیموگرافک سروے کے مطابق خود 40 فی صد خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ کھانا جلا دینے، شوہر سے بحث کرنے، اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانے، بچوں کو نظر انداز کرنے، جسمانی تعلق سے انکار، سسرال کو نظر انداز کرنے جیسی وجوہات پر شوہر کا بیوی پر تشدد جائز ہے۔
مردوں کے رویے اور صنفی برابری کا سروے حکومت پاکستان، رٹگرز پاکستان، پاپولیشن کاؤنسل اور روزن تنظیم کے مشترکہ تعاون سے کیا گیا۔ اس تحقیق میں یہ سامنے آیا کہ 56 فی صد غیر شادی شدہ مرد اور 59 فی صد شادی شدہ مرد سمجھتے ہیں کہ بعض صورتوں میں خواتین پر تشدد جائز ہے۔
اسی سروے کے مطابق 58 فی صد مردوں کاکہنا ہے کہ خواتین کے حقوق پر کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں جب کہ اس کے برعکس 60 فی صد خواتین اس کی ضرورت محسوس کرتی ہیں۔