اتوار کی صبح پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وفات پانے والے جوہری سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جہاں پاکستان میں محسنِ پاکستان کے طور پر جانا جاتا تھا وہیں مغربی دنیا اُنہیں جوہری ٹیکنالوجی کی اسمگلنگ کا ذمے دار سمجھتی تھی۔
پچاسی سالہ ایٹمی سائنس نے ستر کی دہائی میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کام شروع کیا۔ ملک میں سول اور فوجی حکومتیں آتی رہیں، لیکن پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھا جس کے مرکزی کردار ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی تھے۔
البتہ 2004 میں جوہری ہتھیاروں کی ایران، شمالی کوریا اور لیبیا منتقلی کی خبروں نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی اور پاکستان پر بھی یہ الزام لگا کہ وہ ان ہتھیاروں کے پھیلاؤ میں ملوث ہے اور اس ضمن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام بھی خبروں میں آنے گا۔
انہوں نے ان الزامات کا ٹی وی پر آ کر اعتراف کیا اور اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے انہیں معافی دے دی تھی جس کے بعد وہ گزشتہ کئی برسوں سے سخت نگرانی اور سیکیورٹی میں اپنے گھر پر ہی مقیم تھے اور ان کی سماجی زندگی بہت محدود ہو گئی تھی۔
البتہ بعدازاں کئی انٹرویوز میں اُن کا مؤقف رہا کہ جوہری ٹیکنالوجی کی مبینہ اسمگلنگ کے معاملے پر اُنہیں 'قربانی کا بکرا' بنایا گیا۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان بھوپال سے اے کیو خان لیبارٹری تک
ستائیس اپریل 1936 کو تقسیمِ ہند سے قبل بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آ گئے جہاں انہوں نے ابتداً کراچی میں سکونت اختیار کی۔
سن 1960 میں کراچی یونیورسٹی سے میٹالرجی میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے۔ انہوں نے جرمنی اور ہالینڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جب کہ بیلجیم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کیں۔
ڈاکٹر خان 15 برس یورپ میں رہنے کے بعد سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اصرار پر 1976 میں اس وقت پاکستان واپس آئے جب دو برس قبل بھارت کی جانب سے کیے گئے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان میں بھی جوہری پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر انہوں نے 31 مئی 1976 کو انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں اسی ادارے کا نام یکم مئی 1981 کو جنرل ضیاالحق نے ’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔
یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
خان ریسرچ لیبارٹریز نے جوہری پروگرام کے علاوہ پاکستان کے لیے ایک ہزار کلو میٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائل سمیت کم اور درمیانی رینج تک مار کرنے والے متعدد میزائل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
چودہ اگست 1996 کو اس وقت کے صدرِ مملکت فاروق لغاری نے انہیں پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز نشانِ امتیاز سے نوازا۔
اس سے قبل انہیں 1989 میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔
ڈاکٹر اے کیو خان نے متعدد مرتبہ اعتراف کیا کہ پاکستان میں ایٹمی پروگرام سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا جنہیں مختلف حکمرانوں نے آگے بڑھایا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے جڑے تنازعات
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جہاں پاکستان میں ایک ہیرو کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے وہیں بین الاقوامی سطح پر ان کا نام تنازعات میں بھی شامل رہا۔
ان کے خلاف ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام کتابوں میں بھی موجود ہیں جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت نے ان کو باعزت بری کر دیا۔
سن 2004 ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لیے مشکلات سے بھرپور سال تھا جب مختلف بین الاقوامی جرائد میں پاکستان کی طرف سے جوہری ٹیکنالوجی منتقل کرنے کی خبریں شائع ہوئیں اور اسلام آباد پر عالمی دباؤ بڑھنے لگا۔
ان الزامات کے منظرِ عام پر آنے کے بعد 31 جنوری 2004 کو ڈاکٹر اے کیو خان کو گرفتار کر لیا گیا، اس وقت پاکستان میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف صدر تھے۔
ڈاکٹر اے کیو خان ٹی وی اسکرین پر آئے اور تمام الزامات کو تسلیم کیا۔ اس کے اگلے دن اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے انہیں عام معافی دینے کا اعلان کیا تاہم اگلے کئی برسوں تک وہ عام لوگوں کی نظروں سے دور سخت سیکیورٹی میں اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں اپنے گھر میں نظر بند رہے۔
اس بیان کے بارے میں کئی برس بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ انہیں معروف قانون دان ایس ایم ظفر اور اس وقت پاکستان میں حکمراں جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے 'اعترافی' بیان دینے پر رضا مند کیا تھا اور کہا تھا کہ ان الزامات کے تسلیم کرنے کے بعد ان پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔
البتہ ڈاکٹر اے کیو خان کا بعدازاں یہ شکوہ رہا ہے کہ انہیں گھر پر نظر بند کر دیا گیا اور ان کے اہلِ خانہ اور چند قریبی افراد کے علاوہ کسی کو ان تک رسائی حاصل نہیں تھی اور نہ ہی ڈاکٹر قدیر کو آزادنہ نقل و حرکت کی اجازت تھی۔
ان کا اعترافی بیان سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف مزید تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ مغربی ممالک کی جانب سے بھی پاکستان پر یہ دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ وہ اس معاملے کی مزید تحقیقات کرے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی حمایت میں بات کرنے والے اکثر افراد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اگرچہ اپنی لیبارٹری کی حد تک خود مختار تھے لیکن اگر انہوں نے ٹیکنالوجی اور آلات ملک سے باہر منتقل کیے تو وہ لازمی طور پر سول یا ملٹری جہازوں کے ذریعے ہی گئے ہوں گے۔ کیوں کہ باقاعدہ حکومتی منظوری کے بعد اس نوعیت کا عمل نا ممکن ہے۔
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ عالمی برادری کو جوہری مواد کے عدم پھیلاؤ کے حوالے سے کرائی گئی یقین دہانیوں پر قائم ہے اور کبھی بھی کسی دوسرے ملک کو ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
صحافی سرل المیڈا نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اے کیو خان بدعنوانی میں ملوث تھے اور کچھ ممالک کو بلیک مارکیٹ کے ذریعے جوہری ٹیکنالوجی فروخت کر رہے تھے۔ اس سے پاکستان کا ایٹمی پروگرام خطرے میں پڑا جس کے سنجیدہ اسٹرٹیجک مضمرات تھے۔
البتہ سن 2008 میں اپنے مبینہ اعترافِ جرم سے متعلق خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا تھا کہ اُنہوں نے پاکستان کو پہلی مرتبہ اُس وقت بچایا جب پاکستان ایٹمی قوت بنا۔ جب کہ دوسری مرتبہ اُس وقت بچایا جب اُنہوں نے سارے الزامات اپنے سر لے لیے تھے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی
ڈاکٹر عبدالقدیر خان 2004 سے 2009 تک مکمل نظربندی کی زندگی گزارتے رہے اور اس عرصہ کے دوران انہیں کسی عوامی مقام پر نہیں دیکھا گیا۔
سن 2009 میں ان پر عائد پابندیاں نرم کر دی گئیں اور انہیں کسی حد تک سماجی تقریبات میں بھاری سیکیورٹی کے ساتھ جانے کی اجازت دی گئی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی آزادانہ زندگی گزارنے کے لیے پاکستان کی عدالتوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے تحت کیسز بھی کیے لیکن لاہور ہائی کورٹ نے ان کی درخواست سننے سے معذرت کر لی کہ یہ کیس ان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایڈوکیٹ توفیق آصف کے ذریعے انہوں نے یہ درخواست 2019 میں دائر کی تاہم دو برس کے عرصے میں صرف پانچ مرتبہ اس کیس کی سماعت ہو سکی اور کوئی فیصلہ سامنے نہ آ سکا۔
اپنی اس درخواست کے بعد ایک دفعہ ڈاکٹر اے کیو خان سپریم کورٹ بھی پہنچے جہاں ان کو لانے والے افراد انہیں کمرۂ عدالت میں لانے کے بجائے رجسٹرار کے دفتر میں لے گئے اور وہیں سے انہیں گھر واپس لے گئے۔
جون 2020 میں عدالت کی ہدایت پر اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے ان سے ملاقات کی اور ان کی مشکلات کے حوالے سے آگاہی حاصل کی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں فیصل مسجد سے چند قدم کی مسافت پر ایک گھر میں مقیم تھے جہاں سخت سیکیورٹی میں انہیں رکھا گیا تھا۔ یہاں گلی کے دونوں اطراف پر سیکیورٹی اہلکار موجود ہوتے تھے جو ہر آنے والے پیدل یا گاڑی سوار کو چیک کرنے کے بعد ہی گزرنے کی اجازت دیتے تھے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظربندی کے خلاف دائر درخواست کی آخری سماعت گزشتہ ماہ ہوئی جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر کی صحت کے حوالے سےآگاہ کیا گیا کہ وہ کرونا سے متاثر ہونے کے بعد وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد صحت یاب ہوکر گھر واپس آگئے ہیں۔
اس درخواست کی سماعت کے بعد اگلی سماعت کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی اور ڈاکٹر عبدالقدیر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد اب یہ درخواست ہی غیر مؤثر ہو گئی ہے۔
رواں برس ڈاکٹر عبدالقدیر خان میں 26 اگست کو کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد تشویشناک حالت کے باعث انہیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری اسپتال میں داخل کیا گیا، تاہم طبیعت سنبھلنے پر وہ واپس گھر منتقل ہو گئے تھے۔
اس دوران ڈاکٹر عبدالقدیر سے متعلق ایک بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے حکومتی شخصیات کی بے اعتنائی اور دوران علالت مزاج پرسی نہ کرنے کا گلہ کیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکلا کی ٹیم میں شامل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر ایک آزاد زندگی گزارنا چاہتے تھے کیوں کہ وہ کسی اہم موضوع پر اپنی مرضی سے اخبارات کے لیے تحریر بھی نہیں لکھ سکتے تھے۔