پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب سے متعلق ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ پرحکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
اتحاد میں شامل جماعت مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بینچ پر شدید تنقید کی جو ڈپٹی اسپیکر پنجاب دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف چوہدری پرویز الہیٰ کی درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرنے والوں میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر رہنما شامل تھے۔ پریس کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے طارق بشیر چیمہ بھی موجود تھے۔
پریس کانفرنس میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز نے 22 جولائی کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں کامیابی حاصل کی البتہ تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرا دی۔ ان کے مطابق چھٹی کے دن رات کو سپریم کورٹ کھلی اور رجسٹرار نے انتظار کیا جس کے بعد درخواست لکھی گئی۔
انہوں نے سپریم کورٹ کے اس معاملے کی سماعت کے لیے بننے والے بینچ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف کا نظام ہے کہ جب کوئی درخواست آتی ہے تو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ کون سا بینچ بنے گا اور کیا فیصلہ آنا ہے۔ ان کے بقول، 2017 میں پاناما کیس کی سماعت کے لیے جس جج کو مانیٹرنگ جج لگایا گیا وہ جج مسلم لیگ (ن) کے خلاف ہر بینچ میں شامل ہوتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی رہنما نے عدالتی بینچ کی تشکیل پر مزید کہا کہ جس طرح میچ فکسنگ ایک جرم ہے اس طرح بینچ فکسنگ بھی جرم ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وزارتِ اعلٰی کے انتخاب پر ڈپٹی اسپیکر کی رُولنگ کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ ہفتے کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رُکنی بینچ نے پرویز الہٰی کی درخواست پر اس معاملے کی سماعت کی تھی اور مزید سماعت کے لیے پیر کا دن مقرر کیا تھا۔
SEE ALSO: ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس: حکومتی اتحاد نے فل کورٹ نہ بنانے کے فیصلے پر مقدمے کا بائیکاٹ کر دیاچیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف چوہدری پرویز الہیٰ کی درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔
پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کے 22 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ مسترد کر دیے تھے جس کے بعد حمزہ شہباز ایک بار پھر صوبے کے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہو گئے تھے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوار حمزہ شہباز شریف نے 179 جب کہ تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی کو 186 ووٹ ملے تھے۔ البتہ ڈپٹی اسپیکر نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کےایک خط کی بنیاد پر مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ مسترد کر دیے تھے۔
تحریکِ انصاف اور چوہدری پرویز الہٰی نے جمعے کی شب ہی سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف پٹیشن دائر کر دی تھی۔
پیر کو مذکورہ درخواست پر سماعت سے قبل مریم نواز اور حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر شدید تنقید کی۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں اسپیکر نے رولنگ دی کہ چوہدری شجاعت حسین کی مرضی کے مخالف ووٹ دینے والے ارکان کے ووٹوں کی گنتی نہیں ہو گی جس پر اسپیکر کو ہی کٹہرے میں بلالیا گیا۔
ان کے بقول، "عمران خان بطور پارٹی چیئرمین حکم دیتے ہیں تو وہ معتبر ہیں لیکن چوہدری شجاعت کی دفعہ پارلیمانی پارٹی معتبر ہو جاتی ہے۔"
مریم نواز نے الزام عائد کیا کہ پارٹی کا سربراہ اور پارٹی کو دیکھ کر فیصلے بدل جاتے ہیں، ترازو ٹھیک ہو گا تو پاکستان خود ٹھیک ہو جائے گا۔
SEE ALSO: رپورٹرز ڈائری: جیت حمزہ کی لیکن نعرے 'ایک زرداری سب پر بھاری' کےسپریم کورٹ نے پیر کو معاملے پر سماعت سے قبل سیاسی رہنماؤں کے عدالتی احاطے میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا جس کے بعد اعلیٰ عدالت کے داخلی دروازے پر رینجرز اہلکار تعینات کر دیے گئے اور وکلا و صحافیوں کو بھی اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا ۔
سپریم کورٹ میں سیاسی رہنماؤں کے داخلے پر پابندی پر مریم نواز نے کہا کہ ہمارے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے البتہ لاہور رجسٹری میں جب دیواریں پھلانگی گئیں اور شیشے توڑے گئے تو اس وقت کسی نے کیوں کچھ نہیں کہا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ کی توہین کوئی اور نہیں متنازع فیصلے کرتے ہیں۔ فیصلہ غلط ہو سکتا ہے لیکن اس کا تسلسل اور اس کے اثرات دہائیوں تک رہتے ہیں۔ اگر درست فیصلہ کیا جائے تو تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواست پر سماعت کرنے والے بینچ سے ہمیں انصاف کی کوئی توقع نظر نہیں آ رہی۔
SEE ALSO: حمزہ شہباز کو پیر تک بطور ٹرسٹی وزیرِ اعلیٰ کام کرنے کی ہدایتمولانا فضل الرحمٰن نے مریم نواز کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز نے جو گفتگو کی یہ سب کی متفقہ رائے ہے ۔اسی کو بنیاد بنا کر مزید آگے بڑھنا ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ نے متنبہ کیا کہ قوم کو اس حد تک نہ پہنچائیں کہ وہ اداروں کے خلاف بغاوت کرنے پر اتر آئے۔ ان کے بقول ملک کو تحفظ دینے کے لیے عوام کے نمائندوں کو آخری حد تک جانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم بھی ایک ادارہ ہیں، عوام بھی ادارہ ہے، پارلیمان بھی ایک ادارہ ہے جسے طاقت ور بنانے کے لیے آگے بڑھنا ہے۔ اداروں پر اعتماد بحال کرنے کے لیے اداروں کو بھی خود احتسابی کرنی ہوگا۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ملک کی معیشت کو اتفاق رائے سے ٹھیک کرنا ہے۔ معیشت کو ٹھیک کرنے کی اجازت دی جائے۔ اگر ملک میں استحکام ہوگا تو معیشت بھی ٹھیک ہو جائے گی۔
ان کے بقول گزشتہ چار برس میں اضطراب کی کیفیت نے ملک کا بیڑا غرق کیا ہے اور مزید اضطراب پیدا کر کے پاکستان کے مستقبل کو تاریک کیا جا رہا ہے۔ ملک کے مستقبل کو روشن بنانا ہے اس کے لیے استحکام ضروری ہے۔
عدالتی بینچ کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ بینچ سے انصاف کی توقع نظر نہیں آ رہی ہے۔ عدالت سے فیصلہ کرنے کا حق نہیں چھین رہے۔ یہ کہہ رہے کہ فل کورٹ اس کیس کی سماعت کرے۔
SEE ALSO: وزیرِاعلیٰ پنجاب کا انتخاب: سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصروں کی بھرمارانہوں نے مزید کہا کہ جتنی اس میں اجتماعیت ہوگی اتنی ہی کچھ امید رہے گی کہ فیصلہ میرٹ پر ہوگا۔ ورنہ یہ بینچ تو اپنے کیے ہوئے فیصلوں کو رد کرے گا یا ان میں تضاد ہوگا یا ان میں تصادم ہوگا یا اسی طرح کا فیصلہ سامنے آئے گا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے دوست محمد مزاری کو طلب کیے جانے پر مولانا فضل الرحمٰن کا مؤقف تھا کہ عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کو طلب کرکے ان کے عہدے کی تضحیک کی ہے۔
پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اگر صرف تین جج بیٹھ کر فیصلہ سنائیں گے تو پھر جو اس ملک میں ہو گا اسے ہم نہیں سنبھال سکیں گے۔
حکومت میں شامل جماعتوں کی پریس کانفرنس پر پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما سینیٹر اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم عدلیہ اور معزز ججوں کو دھمکیاں دینا بند کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) مرضی کے فیصلے کرانے کے لیے جسٹس قیوم جیسے جج چاہتی ہے۔
حکومتی جماعتوں کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس سے متعلق انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مقصد عدلیہ پر دباؤ ڈالنا ہے۔ عدالتوں پر حملہ مسلم لیگ (ن) کا پرانا طریقۂ واردات ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ مریم نواز کا میڈیا سیل سوشل میڈیا پر ججز کے خلاف مہم چلانے میں ملوث ہے۔ پی ڈی ایم کے شکست خوردہ چہرے پوری قوم کے سامنے عیاں ہو چکے۔