پاکستان کے سابق وفاقی وزیرِ خزانہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ اگر اسحاق ڈار کی جگہ وہ یا احسن اقبال وزیرِ خزانہ ہوتے تو آئی ایم ایف پروگرام ستمبر یا اکتوبر ہی میں بحال ہو جاتا۔
مفتاح اسماعیل کو گزشتہ سال ستمبر میں وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جس سے موجودہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو ان کا جانشین بنانے کی راہ ہموار ہوئی تھی جو حکمران مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی اور رشتہ دار بھی ہیں۔
مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی زیادہ ضرورت پاکستان کو ہے۔ اس لیے اس پروگرام کی بحالی کے لئے شرائط پوری کرنے کی ذمہ داری بھی پاکستان ہی پرعائد ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کا کہنا ٹھیک ہے کہ پاکستان کو جو شرائط پوری کرنی تھیں، وہ پاکستان نے پوری کر لی ہیں لیکن اس میں بے حد تاخیر کی گئی اور اس کا نقصان بھی ہوا۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں سابق وزیرِ خزانہ نے بتایا کہ تاخیر کی وجہ سے پاکستان کی بیرونی قرضوں کی ضرورت چونکہ بڑھ گئی ہے تو آئی ایم ایف نے اب حکومت کو تین نہیں بلکہ چھ ارب ڈالرز مزید کا انتظام کرنے کو کہا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’میرے وزارتِ خزانہ کے زمانے میں آئی ایم ایف نے چار ارب ڈالر کے انتظامات کا مطالبہ کیا تھا جبکہ ہم نے اس وقت سات ارب ڈالر جمع کر لیے تھے۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے پاکستان کی اگرچہ بیرونی مالی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے تین ارب ڈالر ادائیگی کی یقین دہانی تو کرادی ہے ۔" ہو سکتا ہے یہ ممالک پاکستان کے بڑے اچھے دوست ہوں لیکن جب آپ ان سے با رہا پیسے مانگیں گے تو وہ کترائیں گے نا۔"
ان ک مطابق سعودی عرب کے وزیر نے تو یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان اور دیگر ممالک جو قرض مانگتے ہیں انہیں بھی تو خود کچھ کرنا چایے۔
مفتاح اسماعیل نے سوال کیا کہ آخر ہم اپنے گھر کو کیوں ٹھیک نہیں کرتے؟ مہنگی بجلی پیدا کرکے سستی بیچنا، بجلی بیچ کر بل اکھٹے نہ کرنا یا مہنگا تیل خرید کر اس پر سبسڈی دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟
Your browser doesn’t support HTML5
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے کو مکمل طور پر ٹالنے کے لیے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کے لیے جانے کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ تمام بڑے بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کی شرح نمو کو رواں مالی سال کے لیے ایک فی صد سے بھی کم بتا رہے ہیں جس کا اثر غریب آدمی پر بہت زیادہ پڑے گا اور وہ غریب تر ہوجائے گا۔
پاکستان کے دو بار وزیر خزانہ رہنے والے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ پاکستانی معیشت کا بنیادی مسئلہ چادر دیکھ کر پاؤں نہ پھیلانا ہے۔ حکومتی اخراجات اس کی آمدن سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے اور اس میں سے زیادہ تر قرض بیرون ملک سے لینا پڑتا ہے جس سے جاری کھاتوں کا خسارہ پیدا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 75 برس میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کیا گیا جب کہ یہ صرف تین برس میں ہی سرپلس رہا۔ اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا کُل قرضہ 50 ہزار ارب روپے سے زائد ہو چکا ہے اور اب لوگ پاکستان کو مزید قرض نہیں دے رہے۔ ان قرضوں سے پاکستان نے اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے پر بھی خرچ نہیں کیا تو آج پاکستان کے لیے قرض واپس کرنا مشکل ہورہا ہے۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ پاکستانی معیشت کا دوسرا بڑا مسئلہ روپے کی قدر میں تیزی سے ہونے والی کمی سے افراط زر بہت زیادہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی نے غریب ہی کی نہیں بلکہ مڈل کلاس کی کمر بھی توڑ دی ہے اور حکومت کے پاس بھی اس قدر پیسے نہیں ہیں کہ وہ خوش اسلوبی سے اپنے واجبات ادا کرسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں زراعت، ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے، تاجر اور پروفیشنلز بہت ہی کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہاں صرف نوکری پیشہ افراد اور مینوفیکچرنگ پر ٹیکس لیا جا رہا ہے لیکن 22 لاکھ دکانداروں میں سے صرف 30 ہزار ہی انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح زرعی انکم جس قدر زیادہ ہو اس پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت کے شہر پونا میں جتنا ٹیکس جمع ہوتا ہے اتنا ہمارے سب سے بڑے پورے صوبہ پنجاب سے ٹیکس اکھٹا نہیں ہوتا اور پھر جب تک ٹیکس سے استثنیٰ ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔
SEE ALSO: پی ڈی ایم حکومت کا ایک سال؛ مہنگائی، شرح سود میں اضافہ، روپے کی قدر میں بڑی کمیسابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مزید کہا کہ پاکستان میں زیادہ تر بچے ریاضی اور سائنس کے سادہ امتحانات میں فیل ہوجاتے ہیں۔حکمران لوگوں کو بھوک، افلاس ، پیاس، مناسب روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہے۔
مفتاح اسماعیل کے خیال میں اس کی ذمہ دار اشرافیہ ہے جس نے 75 سال سے ملک کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اشرافیہ نے ملک کے دیگر شہریوں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ اور پاکستان ان ممالک سے بھی پیچھے ہوگیا ہے جو کچھ عرصے قبل ترقی کی دوڑ میں اس کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سمت ہی غلط ہے۔ اور اس وقت ضرورت ہے کہ پاکستان کی سمت کو تبدیل کیا جائے۔ پاکستان کا ایک نیا تصور پیش کرنا ضروری ہے اور ہ سوچنا ہوگا کہ پاکستان کو کیسے بہتر کیا جاسکتا ہے۔
مفتاح اسماعیل کے خیال میں ان کی باتوں میں کوئی بھی نکتہ پارلیمان کے خلاف نہیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے پارلیمان میں عوامی اہمیت کے موضوعات پر کم بات کی جارہی ہے۔ہمارے ہاں سیاست اقتدار کی جنگ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ سیاست دان ایک دوسرے پر طعنے اور الزامات کس رہے ہوتے ہیں اور وہ عوام کو بھول چکے ہیں۔ کوئی سیاست دان یہ بات نہیں کر رہا کہ ملک میں ہر سال 55 لاکھ بچے پیدا ہو رہے ہیں اور ان کے لیے ہمارے پاس وسائل، روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولیات ناکافی ہیں۔
ان کے بقول کوئی بھی سیاسی جماعت غربت ختم کرنے کا منصوبہ نہیں بنا رہی اور نہ کوئی مزدوروں کو ان کا حق دلانے کی بات بھی کر رہی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ سیاسی جماعتیں بری طرح سے ناکام ہوچکی ہیں۔ سیاسی جماعتیں صرف اپنے رہنماؤں کو اقتدار دلانے تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان میں مارشل لا، صدارتی نظام، پارلیمانی نظام، ہائبرڈ نظاموں کے تجربے ہو چکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہاں سارے ہی نظام ناکامی کا منہ دیکھ چکے ہیں۔ اور تمام تجربات کے باوجود بھی ملک میں ترقی ہوتے نظر نہیں آتی جب کہ دوسری جانب انگلینڈ اور جاپان میں پارلیمانی نظام بہترین کام کر رہا ہے تو امریکہ میں صدارتی نظام فعال کام کر رہا ہے۔
SEE ALSO: رپورٹر ڈائری: ’ملک معاشی سے پہلے سیاسی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے‘ان کے خیال میں مسئلہ یہ نہیں ملک میں کون سا سیاسی نظامِ حکومت ہو بلکہ مسئلہ پاکستان کے نظام حکمرانی کا ہے جو ناقص ہے اور اس کو ٹھیک کرنا ضروری ہوچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں آئین تو موجود ہے لیکن 50 سال گزرنے کے باوجود بھی اس پر عمل درآمد نظر نہیں آتا۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ ملک میں قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے اور موجودہ قیادت کوئی بہتر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے۔ اگر حکمران ، سیاست دان اہلیت رکھتے تو پاکستان اس مقام پر نہ کھڑا ہوتا۔
ان کے بیانیے سے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی نقصان کے حوالے سےمفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ان سمیت تمام ہی سیاستدانوں کی اولین وفاداری پاکستان کے ساتھ ہے، بعد میں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہے اور اسی لئے وہ سیاست میں آئے ہیں۔
ان کے بقول وہ اب بھی یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں لیکن وہ سیاستدانوں اور موجودہ قیادت پر اپنی آزادی اظہارِ رائے کے حق کے ساتھ ذاتی رائے رکھنے اور تنقید کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے پلیٹ فارم ’ری امیجنگ پاکستان‘ کے ذریعے کسی فرد کے بجائے ان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا ہم یہ نہ کہیں کہ ملک میں ہر قسم کی حکمرانی کے باوجود بھی ترقی نہ ہوسکی؟ عوام تاریخی مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ پہلے عمران خان حکومت اور پھر ان کی جماعت کے اسحاق ڈار نے توڑا؟ یہ باتیں تو سچائی ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا وہ کوئی نئی جماعت یا تنظیم کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں؟ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ وہ یا ان کے ساتھی اکیلے نہیں کر سکتے۔ اول تو یہ ان کا ارادہ نہیں لیکن وہ اس کے دروازے بند بھی نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا مقصد سیاسی جماعت بنانا نہیں بلکہ ملک کے اندر موجود سیاسی کشیدگی اور معاشی بحران کا حل تلاش کرنا ہے۔ اس کے لیےانہوں نے اپنے پلیٹ فارم سے حل بھی پیش کیا۔
ان کے بقول آج حالت یہ ہے کہ ہماری آمدن بھارت کے ساتھ بنگلہ دیش سے بھی کم ہوچکی ہے۔ اگر معاملات میں بہتری آجائے تو ان کو کوئی سیاسی جماعت بنانے کا شوق نہیں۔