پاکستان کے سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے سزائے موت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ سابق جنرل کا کہنا ہے کہ انہیں شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔
پرویز مشرف کی اپیل 89 صفحات پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے وفاق اور خصوصی عدالت کو فریق بنایا ہے۔
عدالت میں دائر درخواست میں سابق فوجی صدر کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالت میں جو کارروائی ہوئی وہ ہدف بنا کر کی گئی تھی۔ ایمرجنسی کی اعانت اور سہولت کاروں کو کارروائی کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔ سہولت کاروں کو عدالتی کارروائی کا حصہ بنانے کی درخواست کو نظر انداز کرکے خصوصی عدالت نے ٹرائل مکمل کیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سابق جنرل کے خلاف مبینہ آئینی جرم کی عدالتی کارروائی غیر قانونی طریقے سے کی گئی۔ پرویز مشرف نے آرمی میں 43 سال ایمانداری اور سخت لگن کے ساتھ خدمات انجام دیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف 2001 سے 2008 تک ملک کے صدر رہے ہیں ۔انہوں نے 90 کی دہائی میں تباہ حال معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی کوششوں سے پاکستان تیزی سے ایشیا کی چار ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہوا۔ دہشت گردی میں امریکہ کا اتحادی بننے سے پاکستان دنیا میں نمایاں ہوا۔
عدالتی کارروائی کے حوالےسے درخواست میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کی عدالت سے غیر حاضری جان بوجھ کر نہیں تھی۔ وہ علالت کے باعث کارروائی میں پیش نہ ہو سکے۔ پرویز مشرف جیل توڑ کر نہیں بھاگے تھے۔ خصوصی عدالت نے بھی ان کی علالت کو تسلیم کیا تھا۔ تاہم عدالت نے ان کی غیر حاضری میں سزا سنائی۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کی اپیل ان کی غیر حاضری میں پزیرائی کے قابل ہے۔ بینظیر بھٹو کی اپیل کو بھی سپریم کورٹ نے ان کی غیر حاضری میں سنا تھا۔ خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا سابق صدر، سابق آرمی چیف اور پوری قوم کے لیے برا تاثر دیا۔ پرویز مشرف کو متعدد موذی امراض کا سامنا ہے۔ پرویز مشرف مفرور نہیں لیکن سنجیدہ بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے درخواست میں دعویٰ کیا ہے کہ پراسیکیوشن غداری کا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ وہ اپنی علالت کے باعث سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہو سکتے۔
پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے وفاق اور خصوصی عدالت کو فریق بنایا ہے جب کہ عدالت عظمیٰ سے خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالت نے غداری کیس کا ٹرائل مکمل کرنے میں آئین کی 6 مرتبہ خلاف ورزی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ انصاف کا قتل نہ ہو اسی لیے مقررہ قانونی مدت میں اپیل دائر کی۔
انہون نے 17 دسمبر کو خصوصی عدالت کے 17 فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے مطابق انصاف پر مبنی عدالتی کارروائی کا حق انہیں نہیں دیا گیا جب کہ خصوصی عدالت کی تشکیل بھی غیرآئینی طریقے سے ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ غداری کیس کی عدالتی کارروائی کے آغاز کی کابینہ سے منظوری بھی نہیں لی گئی تھی۔ خصوصی عدالت نے بیان ریکارڈ کرانے کا موقع نہیں دیا۔
سابق صدر کی یہ اپیل ان کے وکیل سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں دائر کی ہے۔
خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی
عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرم کو گرفتار کرکے سزائے موت پرعمل درآمد کرائیں۔ اگر پرویز مشرف مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد میں گھسیٹا کر لایا جائے اور تین دن تک وہاں ان کی لاش لٹکائی جائے۔
گزشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف تین نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگانے اور آئین توڑنے کے الزام میں سنگین غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔
'خصوصی عدالت کا فیصلہ'
گزشتہ ماہ 17دسمبر کو خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔
تفصیلی فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرم کو گرفتار کرکے سزائے موت پر عمل درآمد کرائیں۔
فیصلے کے پیرا 66 میں کہا گیا تھا کہ اگر پرویز مشرف مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد میں گھسیٹ کر لایا جائے اور 3 دن تک ان کی لاش وہاں لٹکائی جائے۔
اس فیصلے پر پاکستان کی فوج کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔ بعد میں حکومت نے بھی اس فیصلے کے خلاف اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔
نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کی تھی جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس کے ججز کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔
پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے سنگین غداری کا جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 26 جون 2013 کو انکوائری کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا جس پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس نے 16 نومبر 2013 کو رپورٹ جمع کرائی۔
لا ڈویژن کی مشاورت کے بعد 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی جس میں ان کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا قرار پایا تھا۔
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ 6 سال سے زائد چلا۔ وہ صرف ایک دفعہ عدالت میں پیش ہوئے اور پھر ملک سے باہر چلے گئے۔
خصوصی عدالت کی متعدد دفعہ تشکیل نو ہوئی اور ججز بدلتے رہے۔
جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے مقدمہ سنا۔ آخر کار 17 دسمبر 2019 کو جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی۔