نیٹو کے سیکریٹری جنرل یینز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ نیٹو کے رکن ممالک نے اس بات پر رضامندی ظاہر کر دی ہے کہ یو کرین کو نیٹو میں شامل کر لیا جائے تاہم ایسا تب کیا جائے گا جب،"اتحاد کے تمام ارکان اس پر متفق ہوں گے اور تمام شرائط پوری کر لی جائیں گی۔"
اسٹولٹن برگ نے یہ بات منگل کے روز کہی جبکہ اس سے پہلے یو کرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے یو کرین کی نیٹو میں شمولیت کا "ٹائم ٹیبل" طے نہ کرنے پر نیٹو اتحاد پر شدید نکتہ چینی کی تھی اوراسے "فضول بات" قرار دیا تھا۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا،" ہم دوبارہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ یو کرین نیٹو کا رکن بنے گا اور ہم اس پر بھی رضامند ہیں کہ اس سلسلے میں لائحہ عمل کی شرط بھی ختم کر دی جائے گی" جو نیٹو میں رکنیت حاصل کرنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا،" اس سے یو کرین کے لیے نیٹو میں شمولیت کے دو ضروری مراحل میں سے صرف ایک باقی رہ جائے گا۔"
اگرچہ نیٹو کے بیشتر رکن ممالک یو کرین کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کر رہے ہیں مگر ان 31 ممالک میں سے تمام یوکرین کو نیٹو کا رکن بنانے پر متفق نہیں ہیں۔
چنانچہ اتحاد کے لیڈروں نے یو کرین کی نیٹو میں شمولیت کی راہ میں حائل بعض رکاوٹوں کو دور کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ روس سے جنگ ختم ہوتے ہی اسے فوری طور پر نیٹو میں شامل کر لیا جائے۔
تاہم صدر زیلنسکی اس پر زیادہ خوش نہیں ہوئے اور انہوں نے فوراً ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا،" اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ فضول بات ہے جبکہ یو کرین کے لیے نہ تو کوئی نظام الاوقات طے کیا گیا ہے اور نہ ہی اسے نیٹو میں شمولیت کا کوئی دعوت نامہ دیا گیا ہے۔"
نیٹو سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے زیلنسکی نے اپنے ٹویٹ میں کہا،" ساتھ ہی "شرائط" کے مبہم الفاظ شامل کر دیے گئے ہیں۔لگتا ہے یو کرین کو نیٹو میں شمولیت کی دعوت دینےیا اس کا رکن بنانے کی کسی کو کوئی جلدی نہیں۔"
نیٹو کے سیکریٹری جنرل سے جب زیلنسکی کی اس تشویش کے بارے میں سوال کیا گیا تو اسٹولٹن برگ نے کہا کہ فی الوقت اہم ترین بات یہ ہے کہ یوکرین جنگ جیت جائے کیونکہ، جب تک یو کرین فتح مند نہیں ہوتا، اس کی رکنیت کے بارے میں قطعاً کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔"
نامہ نگاروں کی جانب سے یوکرین کی رکنیت کی شرائط کی وضاحت کے اصرار پر نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے کہا،" ہم دفاع اور سلامتی کے جدید ادارے چاہتے ہیں اور ایسی مسلح افواج جو نیٹو کے تحت کام کر سکیں۔"
انہوں نے کہا کہ نیٹو میں شمولیت کے لیے کیف کی امیدیں حکمرانی کے معیارات مضبوط بنانے اور کرپشن سے نمٹنے پر قائم رہ سکتی ہیں۔
جبکہ زیلنسکی نے پنے ایک ٹویٹ میں کہا،
" ہم اپنے اتحادیوں کی قدر کرتے ہیں۔ یوکرین بھی عزت کا مستحق ہے۔ انہوں نے مزید کہا، غیر یقینی، ایک کمزوری ہے اور میں اسے سربراہ کانفرنس میں کھل کر بیان کروں گا۔"
بعض حلقوں کی طرف سے ان خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا تھا کہ یو کرین کو نیٹو میں شامل کرنا جارحیت کے خلاف اقدام کے بجائے روس کو مزید اشتعال دلانے کا باعث ہو گا۔
اس پر وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے کہا کہ اتحادی یوکرین کی رکنیت کے لیے ایک خاص راستے پر بات کر رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ اس سربراہ کانفرنس سے ظاہر ہو جائے گا کہ نیٹو میں دراڑ ڈالنے کی پوٹن کی امیدیں کیسے ناکام ہوتی ہیں۔
جہاں تک نیٹو میں توسیع کا معاملہ ہے، دو نئے ممالک اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ فن لینڈ پہلے ہی نیٹو کا 31واں رکن بن چکا ہے اور اب ترکیہ کی رضامندی حاصل ہونے کے بعد سویڈن بھی نیٹو کا 32واں رکن بن جائے گا۔
سویڈن کو نیٹو کا رکن بنانے کے لیے ترکیہ کے اعتراضات ختم ہوتے ہی نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے کہا تھا کہ نیٹو کا یہ سربراہ اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی تاریخی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
SEE ALSO: کیا نیٹو کے رکن ملک یوکرین کی مدد کے لیے دفاعی اخراجات میں اضافہ کریں گے؟ترکی کی رضامندی کو صدر بائیڈن کی کامیابی بھی تصور کیا جا رہا ہے۔ صدر بائیڈن نے نیٹو میں توسیع کی حمایت کرتے ہوئے اسے یو کرین کی جنگ میں ماسکو کی ہزیمت کی ایک مثال قرار دیا تھا۔
ادھر کریملن کے ترجمان دیمتری پاسکوف نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ نیٹو میں توسیع ان وجوہات میں سے ایک ہے جو موجودہ صورتِ حال کا باعث بنیں۔
انہوں نے کہا،" ایسا لگتا ہے کہ یورپی ممالک کو اپنی غلطیوں کا ادراک نہیں ہے۔"
پیسکوف نے یو کرین کو نیٹو کی رکنیت دینے کے معاملے میں تیزی دکھانے کے خلاف بھی خبر دار کیا۔
پیسکوف نے کہا،"دیکھا جائے تو یہ یورپی سلامتی کے لیے بے حد خطرناک ہے اور اس میں بڑے خطرات ہیں۔"
منگل کے روز صدر بائیڈن اور ترک صدر ایردوان کی ملاقات ہوئی۔ اگرچہ صدر بائیڈن نے ترکیہ کی جانب سے سویڈن کو نیٹو کا رکن بنانے پر رضامندی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا،" آپ کل جس سمجھوتے تک پہنچے"۔۔۔ مگر جواب میں ایردوان بالکل خاموش رہے۔
تاہم ایردوان صدر بائیڈن کے ساتھ اپنے تعلقات کے بے حد خواہشمند نظر آئے۔ انہوں نے کہا،" اس سے پہلے کی میٹنگز محض ماحول گرم کرنے کے لیے تھیں مگر اب ہم ایک نئے عمل کا آغاز کر رہے ہیں۔"
ولنئیس میں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا، " صدر بائیڈن کے نکتہ نظر سے ایک بڑا قدم اٹھانے کے لیے ترکیہ کی حوصلہ افزائی مقصود تھی اور ترکیہ نے واقعی ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔
( اس خبر میں معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)