امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بدھ کو نیویارک میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو سے ملاقات کی جس میں مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی بستیوں کی توسیع اور ناقدین کی نظر میں جمہوریت کو خطرہ سمجھے جانے والے اسرائیل کے عدالتی نظام کو تبدیل کرنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔
نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے قیام کے نو ماہ ہو چکے ہیں۔عام طور پر اسرائیل کے رہنماؤں کو عہدہ سنبھالنے کے ہفتوں کے اندر اندر وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا جاتا ہے۔ لیکن بائیڈن اب نیتن یاہو کے ساتھ اپنی پہلی دو طرفہ ملاقات کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں بائیڈن نے نیتن یاہو کو متنبہ کیا کہ "ہم کچھ مشکل مسائل پر بات کرنے جا رہے ہیں۔ " البتہ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی آہنی وابستگی کی پالیسی کا اعادہ کیا۔
مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ ہماری شراکت دار ی کا مرکز جمہوری اقدار کو برقرار رکھنا ہے، اس میں ہمارے نظام میں چیک اینڈ بیلنس شامل ہیں۔ مذاکرات کے ذریعے دو ریاستی (اسرائیل اور فلسطین) حل کے راستے کو محفوظ رکھنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کرپائے۔
SEE ALSO: کیا اسرائیل مغربی کنارے میں نسل پرستی کا نظام نافذ کر رہا ہے؟وائس آف امریکہ کی وائٹ ہاوس کی نمائندہ پیٹسی ودا کوسوارا کے مطابق جن ممکنہ وجوہات کی بنا پر بائیڈن نے اسرائیلی رہنما سے ملاقات میں تاخیر کی ان میں نیتن یاہو کی سخت گیر حکومت کا فلسطینیوں کے ساتھ سلوک اور عدلیہ کے اختیارات کو روکنے کی کوششیں شامل ہیں۔
نیتن یاہو نے بائیڈن کے ساتھ اپنے چار دہائیوں پر محیط تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "ہماری دوستی ایک طویل سفر طے کرتی ہے اور ہمیں بہت آگے لے جا سکتی ہے۔"
بائیڈن اور نیتن یاہو نے اسرائیل اور سعودی عرب کو معمول پر لانے کے ممکنہ معاہدے اور ٹرمپ انتظامیہ کے 2020 کے ابراہم معاہدے کی توسیع پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔
ابراہم معاہدے نے اسرائیل اور اس کے عرب ہمسایہ ممالک بحرین اور متحدہ عرب امارات، مراکش اور سوڈان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو آسان بنایاہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اس طرح کا امن ہمارے لیے عرب اسرائیل تنازع کے خاتمے، عالم اسلام اور یہودی ریاست کے درمیان مفاہمت کے حصول اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان حقیقی امن کو آگے بڑھانے میں دیر پا اہمیت کا حامل ہوگا۔
SEE ALSO: اسرائیل میں جمہوریت نواز احتجاج اور فلسطینی علاقوں پر کنٹرول،کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟دونوں رہنماوں نے نئی دہلی میں حال ہی میں جی 20 کے سربراہی اجلاس کے دوران بائیڈن، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ذریعے اعلان کردہ بھارت-مشرق وسطی-یورپ اقتصادی راہداری کے اقدام کی تعریف کی۔
خیال رہے کہ دو براعظموں پر محیط بین الاقوامی ریل اور جہاز رانی کے منصوبے کو ایشیا، خلیج فارس کے ممالک، اسرائیل اور یورپ کے درمیان اقتصادی انضمام کو تقویت دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
ملاقات میں تاخیر
صدر بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان بدھ کی صبح ہونے والی دو طرفہ ملاقات دس بجکر پندرہ منٹ پر طے کی گئی تھی۔ تاہم یہ ملاقات آدھے گھنٹے سے بھی زیادہ کی تاخیر کے بعد ہوئی حالاں کہ نیتن یاہو کو وقت پر ملاقات کے مقام پر داخل ہوتے دیکھا گیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے اس تاخیر کی کوئی وضاحت نہیں کی لیکن ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ بائیڈن نے نیتن یاہو کو سال کے اختتام سے قبل واشنگٹن مدعو کیا ہے۔
امریکن یونیورسٹی سے منسلک ایک اسرائیلی فارن سروس کے تجربہ کار اور اسکالر ڈین آرڈیل نےاس معاملے پر کہا کہ میٹنگ کو ابھی تک مؤخر کرکے اور اسے نیویارک کے ہوٹل میں منعقد کرکے بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیلی حکومت کی پالیسی پر ناراضگی کا اشارہ دیا ہے۔
SEE ALSO: کیا سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے؟ان کے مطابق پیغام یہ تھا، "ہم مل کر کام کر سکتے ہیں لیکن ہمیں سنجیدہ خدشات ہیں اور اتنی ہی حقیقی توقعات بھی ہیں کہ آپ ان متعدد مسائل پر آگے بڑھیں جو ہمارے لیے باعث تشویش ہیں۔"
اس ضمن میں بار ایلان یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ جوناتھن رین ہولڈ نے کہا کہ نیتن یاہو کے ساتھ بائیڈن کا سرد مہری کا سلوک اسرائیلی سیاست یا فلسطینیوں کے ساتھ اس کے سلوک پر براہِ راست اثر انداز نہیں ہو سکتا۔
"تاہم، یہ اسرائیلی عوام پر واضح کرے گا کہ وہ حکومت کے انتہائی دائیں بازو کے نظریاتی کردار کی وجہ سے ایک بڑی اقتصادی، سفارتی اور تزویراتی قیمت ادا کر رہے ہیں۔"