پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ دوہرے قتل کے الزام میں زیر حراست امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کے معاملے کو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اور افغانستان میں امن واستحکام کی کوششوں پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیئے۔
بدھ کو اسلام آباد میں امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین جان کیری سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے اُنھیں بتایا کہ ڈیوس کا معاملہ عدالت میں زیر غور ہے اور عدالت ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ اُسے سفارتی استثنا حاصل ہے یا نہیں۔
امریکی صدر براک اوباما اور دیگر اعلیٰ عہدے دار بارہا کہ چکے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس ایک سفارت کار ہے جسے مکمل سفارتی استثنا حاصل ہے۔
بیان کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ ان زمینی حقائق کو مدنظر رکھے کہ اس معاملے کے اصل فریق اُن پاکستانیوں کے لواحقین ہیں جو اس واقعے میں ہلاک ہوئے ہیں۔
سینیٹر کیری سے ملاقات سے قبل دارالحکومت میں قومی سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی نے کہا تھا کہ ”ہاں! ایک قتل ہوا ہے ... اس کا حل ہو سکتا ہے کہ جو وارثین ہیں وہ خود معافی دیں یا خود قصاص کی بات کریں یا عدالت فیصلہ کرے۔“ اُنھوں نے کہا کہ اس تمام معاملے میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔
تاہم وزیر اعظم گیلانی نے تسلیم کیا کہ 36 سالہ امریکی اہلکار کے معاملے نے ملک کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے اور اس وقت ایسے مشکل فیصلوں کا سامنا ہے جن کی حکومت کو سیاسی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔
”اگر آپ (ریمنڈ ڈیوس کو رہا) کرتے ہیں عوام آپ کا ساتھ نہیں دیتی، نہیں کرتے تو دنیا ساتھ نہیں دیتی۔“
وزیر اعظم نے کہا کہ وہ قوم کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اُن کی حکومت ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرے گی جو ملکی مفاد کے خلاف ہو۔
اپنے موقف کی تائد میں انھوں نے امریکی صدر براک اوباما کی حالیہ نیوز کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر اُن کی حکومت نے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر کوئی تفریق کرنا ہوتی تو مسٹر اوباما کو ٹی وی پر آکر اس کی رہائی کا مطالبہ کرنے کی ضرورت پیش نا آتی۔
امریکی صدر براک اوباما نے منگل کو واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکہ کا یہ موقف دہرایا کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنا حاصل ہے اور مطالبہ کیا کہ پاکستان سفارت کاری سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اسے فی الفور رہا کرے۔
صدر اوباما کے بیان سے چند گھنٹے قبل امریکی سینیٹ میں خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان کیری ایک غیر اعلانیہ دورے پر پاکستان پہنچے اور لاہور میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے 27 جنوری کو پیش آنے والے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔ لیکن انھوں نے واضح کیا کہ ریمنڈ ڈیوس ایک سفارت کار ہے اور اس کی گرفتاری خلاف قانون ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اس واقعے کی اپنے قوانین کے تحت تحقیقات کرے گا۔
سینیٹر کیری نے بدھ کو اسلام آباد میں وزیر اعظم گیلانی کے علاوہ صدر آصف علی زرداری اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے بھی الگ الگ ملاقات کی جس میں ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سینیٹر کیری کے ساتھ ملاقات کے بعد نواز شریف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اس معاملے سے صحیح طور پر نمٹنے میں ناکام رہی ہے اور کہا کہ امریکی اہلکار کے بارے میں حتمی فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔
امریکی اہلکار کی سفارتی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ نے جمعرات کو حکومت پاکستان سے جواب طلب کر رکھا ہے اور امریکی حکام کا کہنا ہے کہ عدالت کے سامنے ریمنڈ ڈیوس کے سفارت کار ہونے سے متعلق دستاویزات پیش کر کے اس کی فوری رہائی کی استدعا کی جائے گی۔
امریکی اہلکار پر لاہور کے مصروف قرطبہ چوک میں دو پاکستانی نوجوانوں کو قتل کرنے کا الزام ہے تاہم ریمنڈ ڈیوس کا موقف ہے کہ اُس نے دونوں مسلح موٹرسائیکل سواروں پر گولیاں اپنے دفاع میں چلائی تھیں کیوں کہ وہ اسے لوٹنا چاہتے تھے۔
امریکی اہلکار کی قتل کے الزام میں پاکستان میں گرفتاری کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات شدید تنائو کا شکار ہیں۔