معاشی سست روی، بے روزگاری اور مہنگائی؛ کیا اقتصادی مسائل حل ہونے کا امکان ہے؟

فائل فوٹو

عالمی مالیاتی اداروں کی حالیہ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ رواں برس جہاں عالمی شرح نمو میں مزید سست روی دیکھی جائے گی تو وہیں ایشیائی ترقیاتی بینک، ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف) نے پاکستان کی شرح نمو کی پیش گوئی کو بھی مزید کم کر دیا ہے۔ تمام اداروں نے اس سال پاکستان کی شرح نمو ایک فی صد سے کم رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک نے 0.6 فی صد، ورلڈ بینک نے 0.4 فی صد اور اب آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کی اقتصادی شرح نمو 0.5 فی صد سالانہ رہنے کی توقع ظاہر کی ہے جب کہ خود پاکستان کے مرکزی بینک کا اندازہ تھا کہ اس سال کی شرح نمو تین سے چار فی صد کے درمیان رہے گی۔

سال 2018 میں پاکستان کی حقیقی شرح نمو 6.5 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی جو 2019 میں 2.5 فی صد، 2020 میں منفی 1.3 فی صد رہنے کے بعد 2021 میں ایک بار پھر 5.7 فی صد اور پھر سال 2022 میں چھ فی صد کی رفتار سے بڑھ رہی تھی۔

آئی ایم ایف کی جانب سے جاری آؤٹ لک رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ آئندہ سال یعنی 2024 میں پاکستان کی ترقی کی شرح بڑھ کو 3.5 فی صد ہوسکتی ہے جب کہ اس سال مہنگائی کی شرح 27 فی صد سے زائد رہنے کا امکان ہے۔

اس سے قبل آئی ایم ایف نے ملک میں مہنگائی کی شرح 19 فی صد کے قریب رہنے پیش گوئی کی تھی جسے اب رواں مالی سال کے لیے 27 فی صد سے اوپر کر دیا گیا ہے۔

پاکستان کے ادارۂ شماریات کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ ہی میں اوسط مہنگائی 27.2 فی صد تک جا پہنچی ہے۔

اسی طرح مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 6.8 فی صد، جاری کھاتوں کا خسارہ 2.3 فی صد اور قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 73 فی صد سے زائد رہنے کا امکان ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب پاکستانیوں کو پہلے ہی مارچ کے مہینے میں 35 فی صد سے زائد کی تاریخی مہنگائی کا سامنا رہا ہے۔ کم ہوتی ہوئی۔ شرح نمو نے پہلے سے ہی بگڑتی ہوئی معیشت کی بدحالی سے متعلق ماہرین کے خدشات کو مزید پختہ کیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

مقروض ملکوں کے دیوالیہ ہونے کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟

تجزیہ کار ان پیشگوئیوں کو حیران کن طور پر نہیں دیکھتے اور آنے والے برسوں میں پاکستان کی معیشت کو درپیش سنگین چیلنجز کی پیش گوئی کرتے نظر آتے ہیں۔

معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ یہ بدترین مرحلے کا اشارہ ہے، جہاں شرح نمو جمود کا شکار نظر آتی ہے۔ یعنی صنعتیں، زراعت اور سروسز نمو کے تینوں شعبوں میں روزگار کے مواقع کم یا بالکل پیدا نہیں ہو پا رہے جس کا نتیجہ بالآخر زیادہ بے روزگاری کی صورت میں نکلے گا اور ظاہر ہے کہ اس سے غربت میں اضافہ ہوگا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ ملک میں ہر سال لگ بھگ 25 لاکھ مزید نوجوان افرادی قوت کا حصہ بنتے ہیں لیکن صنعتی پہیہ جام، زرعی پیداوار کم ہونے اور سروسز کے شعبوں میں بھی جمود کی وجہ سے ان لوگوں کو روزگار کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے جب کہ یہی نہیں بلکہ پہلے سے برسر روزگار افراد کا روزگار بھی شدید متاثر ہورہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس صورتِ حال میں خدشہ ہے کہ مزید 40 لاکھ کے قریب آبادی خط غربت سے نیچے چلی گئی ہے اور اس سے ملک میں غربت کا شکار افراد کی تعداد 10 کروڑکے قریب جاپہنچی ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ دوسری طرف مہنگائی غیر معمولی طور پر کافی زیادہ ہے۔ خاص طور پر غذائی اشیا کی قیمتیں ماہانہ گزشتہ برس کی نسبت شہروں میں 47 فی صد کی رفتار سے بڑھ رہی ہیں جو سب سے زیادہ کمزور اور کم آمدنی والے طبقے کو متاثر کر رہی ہے۔

لندن میں مقیم ماہر اقتصادیات ڈاکٹر یوسف نذر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو مہنگائی کی جس تیز رفتار لہر کا سامنا ہے اس نے عام لوگوں کی زندگی کو کافی مشکل بنا دیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان کا مالی بحران: دوست ممالک سے غیر مشروط قرضوں کی امید کم ہے، ڈاکٹر رضاوی

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر اس کا تعلق روپے کی قدر میں کمی سے ہے جو ایک سال میں 35 فی صد سے زیادہ کمی کا شکار ہوچکا ہے۔ اگر پاکستان آئی ایم ایف پروگرام جو گزشتہ سال اکتوبر سے معطل ہے، بروقت شروع کرلیتا تو اس وقت ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ کی پوزیشن مستحکم ہوسکتی تھی لیکن ایسا نہ کرنے سے روپے کی قدر میں کمی دیکھی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی معیشت بنیادی طور پر درآمدات پر منحصر ہے اور عالمی سطح پر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے سے بھی عام پاکستانی کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے جب کہ اس کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں دیکھا جارہا۔

یوسف نذر کے مطابق پاکستان کو اس ضمن میں بہت ساری چیزوں پر قابو پانا لازم ہوگا، اس وقت تک مہنگائی پر قابو پانا مشکل نظر آتا ہے اور خدشہ یہ بھی ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

ایک اور ماہر اقتصادیات عادل جیلانی کا کہنا ہے کہ آبادی میں دو فی صد سالانہ اضافے کے ساتھ اگر حقیقی طور پر دیکھا جائے تو ملک کی شرح نمو منفی 1.5 فی صد رہے گی تاہم یہ شرح ملک کو درپیش بحران سے لڑنے کی صلاحیت کے مقابل دکھائی نہیں دیتی۔

دوسری جانب پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت کے بارے میں آئی ایم ایف کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس کی بھی ترقی کی رفتار 6.1 فی صد سے کم ہوکر 5.9 فیصد رہنے کی توقع ہے لیکن اس کے باوجود وہ دنیا کی تیز رفتار ترقی کرنے والی معیشت کا اعزاز اب بھی برقرار رکھے ہوئے ہے جب کہ ملک میں رواں سال فروری میں مہنگائی کی شرح جنوری سے کم ہو کر 6.44 فی صد رہی ہے۔