سندھ میں ہندو اقلیتی برادری کی مبینہ زبردستی مذہب کی تبدیلی کو روکنے کے لیے معاہدہ طے پا گیا ہے۔ تبدیلی مذہب کے حوالے سے سرکردہ سمجھے جانے والے بعض علما اور پاکستان ہندو کونسل کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے تحت فریقین میں اتفاق ہوا ہے کہ ایسے واقعات سے متعلق پیشگی اطلاع فراہم کی جائے گی۔ دوسرے فریق کو مطمئن کرنے کے لیے وقت بھی دیا جائے گا۔
پاکستان ہندو کونسل کے پیٹرن انچیف، رکن قومی اسمبلی اور پاکستان اقلیتی کمیشن کے رکن رمیش کمار وانکوانی اور گھوٹکی کی مشہور درگاہ بھرچنڈی شریف سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو، سجادہ نشین گلزار خلیل عمرکوٹ پیر محمد ایوب جان سرہندی اور جامع بنوریہ کراچی کے مہتمم مولانا نعمان نعیم کے دستخطوں سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔
اس بیان کے مطابق تبدیلیٔ مذہب کے لیے آنے والے لڑکے، لڑکی یا خاندان اگر کسی دینی درس گاہ سے تبدیلی مذہب کے لیے رجوع کرتا ہے۔ تو انہیں اسلام قبول کرانے سے قبل شہر میں موجود ہندو مُکھی یا اس ضلعے کے کسی رکن پارلیمان کے گھر پر مذہب تبدیلی کے خواہش مند افراد کی ان کے والدین اور رشتہ داروں سے آزادنہ ماحول میں ملاقات کرائی جائے گی۔ اور اس ملاقات میں دوسرے فریق کو اچھی طرح مطمئن کرنے کے لیے وقت دیا جائے گا جس کے بعد ہی تبدیلیٔ مذہب کے خواہش مند افراد کے بیان پر عمل کیا جائے گا۔
معاہدے میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اگر ایسا کوئی بھی مسئلہ سامنے آتا ہے۔ تو اس پر بیٹھ کرمشاورت سے مسئلہ حل کیا جائے گا۔
پریس ریلیز کے مطابق علما نے واضح کیا کہ وہ کسی کو بھی زبردستی مسلمان بنانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی اس مقصد کے لیے کسی کو اغوا کیا جاتا ہے۔ ایسے من گھڑت الزامات سے اُن کا اور ملک کا تاثر خراب کیا جاتا ہے۔
علما اور ہندو کونسل نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ حکومت کی جانب سے اس متعلق اگر کوئی ایسا قانون لایا جاتا ہے جو اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت سے تیار ہوا ہو اسے بھی قبول کیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے اس مفاہمت کو مثبت سمت میں ایک قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے مذہب کی تبدیلی سے پہلے ہندو کونسل کو آگاہ کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ تبدیلیٔ مذہب کے خلاف نہیں ہیں۔ مگر اس بارے میں دنیا بھر میں رائج طریقۂ کار پر عمل درآمد ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے وفاقی سطح پر قانون سازی کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر رمیش کے مطابق جبری تبدیلیٔ مذہب ان کی کمیونٹی کا ایک دیرینہ مسئلہ تھا جو مشترکہ کاوشوں سے اب حل ہوتا نظر آرہا ہے۔
معاہدے میں شریک جامعہ بنوریہ کے مولانا نعمان نعیم کا کہنا تھا کہ جبری تبدیلیٔ مذہب کے الزامات سے چھٹکارے کے لیے یہ تسلیم کیا ہے کہ اگر کوئی لڑکا، لڑکی یا خاندان اسلام قبول کر رہے ہیں۔ تو اس سے پہلے ان پر کسی قسم کی زور زبردستی نہ ہونے کی تصدیق ضروری ہے۔ اور اگر وہ دل سے اسلام قبول کرتے ہیں تو ہندو کونسل یا کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کسی کو دباؤ کے ذریعے اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جارہا ہو تو پھر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا کہ ہندو مُکھی انہیں اپنے پاس ہی رکھ لے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ تمام معاملات باہمی افہام و تفہیم سے طے ہوئے ہیں۔ دین اسلام میں زبردستی کی کوئی گنجائش نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے سے قبل بھی کوئی مسلمان ہونے کے لیے ان کے ادارے سے رجوع کرتا ہے تو اس سے قبل اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے سے قبل اس کا مطالعہ کیا ہے یا نہیں۔ اور اس مقصد کے لیے دائرہ اسلام میں داخل کرنے سے قبل فارم میں ایسے بیسیوں سوالات کے جواب تحریری طور پر بھی لیے جاتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کے معاہدے پر شبہات
انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کے عہدیداران اس معاہدے پر عملدرآمد سے متعلق شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ معاہدے پر عمل ہوتا نظر نہیں آرہا۔
اُن کے خیال میں اس میں سب سے بڑی رکاوٹ شدت پسندانہ سوچ رکھنے والے مذہبی عناصر ہیں۔ مذہب کی تبدیلی کسی مذہبی اسکالر کے سامنے ہونے کے بجائے عدالت میں ہونی چائیے۔ تا کہ عدالت یہ دیکھ سکے کہ مذہب تبدیل کرنے والا بالغ اور سمجھدار ہے بھی یا نہیں؟ کیا وہ مذہب کے فلسفے کو سمجھتا ہے یا اس کو دباؤ اور مجبور کرکے مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے اس شبے کا اظہار کیا کہ تبدیلیٔ مذہب کو غیر مسلم لڑکیوں کے استحصال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس مقصد کے لیے اقلیتوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے پھر شادی کرا دی جاتی ہے۔ تاکہ مذہب کی تبدیلی کو قانونی حیثیت حاصل ہو۔
ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قوانین موجود ہیں مگر اصل مسئلہ ان پر عمل درآمد کا ہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن کے بقول مذہبی ریاستوں کے امتیازی قوانین کے باعث وہاں اقلیتوں کا قانونی تحفظ ممکن نہیں ہوتا۔
سینٹر فار سوشل جسٹس کی حالیہ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق 2013 سے 2020 تک ایسے 162 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 52 فی صد کیسز پنجاب سے رپورٹ ہوئے۔ جب کہ 44 فی صد سندھ، خیبر پختونخوا سے 1.23 فی صد اور اسلام آباد سے بھی 1.2 فی صد کیسز رپورٹ ہوئے۔ جب کہ بلوچستان میں جبراً مذہب تبدیلی کے 0.62 کیسز سامنے آئے۔
رپورٹ کے مطابق جبری تبدیلی مذہب کے سب سے زیادہ واقعات جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور میں رپورٹ ہوئے جہاں ان کی تعداد 21 رہی۔اسی طرح 14 واقعات لاہور، کراچی میں 12، فیصل آباد میں 10، حیدرآباد میں آٹھ، قصور اور گھوٹکی میں چھ، چھ، بدین میں پانچ جبکہ عمرکوٹ اور سیالکوٹ میں چار ،چار کیسز رپورٹ ہوئے۔
گزشتہ ماہ خبر ساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو دیے گئے انٹرویو میں حکومت سندھ کے محکمہ انسانی حقوق کی ویجیلنس کمیٹی کی رکن سیما مہیشوری کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ لیکن ان کے اندازے کے مطابق ہر سال ایک ہزار لڑکیوں اور خواتین کا مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وفاقی وزارتِ خارجہ نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے من گھڑت اور بغیر ثبوتوں کے مبنی قرار دیا تھا۔
ترجمان نے بیان میں کہا تھا کہ رپورٹ سیاسی وجوہ اور بدنیتی پر مبنی تھی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات پر تمام اداروں نے قصورواروں کے خلاف فوری ایکشن لیا۔ عدالت میں مقدمات درج ہوئے جب کہ ملک کی عدلیہ بھی اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں انتہائی مستعد کردار ادا کر رہی ہے۔