امریکہ میں رواں ہفتے ہونے والی جمہوریت کے حوالے سے دوسری سربراہی کانفرنس میں پاکستان سمیت 120 سے زیادہ ممالک کے رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے البتہ اسلام آباد کا اس میں شرکت کے حوالے سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا۔
اس کانفرنس میں پاکستان کے ساتھ ساتھ اس کے پڑوسی ملک بھارت کی قیادت بھی شرکت کرے گی۔اطلاعات کے مطابق پاکستان کے تین قریب دوست ممالک چین، ترکی اور سعودی عرب کو کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا جب کہ تائیوان کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
’گلو بل ڈیکلریشن آف میئرز فار ڈیموکریسی‘ کے عنوان سے ورچوئل کانفرنس امریکہ کے محکمۂ خارجہ اور امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی(یو ایس ایڈ) کے اشتراک سے ہو رہی ہے۔ اس میں جمہوری اقدار ، شہروں اور مقامی حکومتوں کے کردار کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر جمہوریت کے امور زیرِ بحث آئیں گے۔
پاکستان نے تاحال اس کانفرنس میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا۔ کانفرنس کاآغاز منگل س ہو رہا جب کہ اس سلسلے میں ہونے والی د سمبر 2021 میں پہلی کانفرنس میں پاکستان نے کوئی وجہ بتائے بغیر شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
اس وقت ایک تاثر یہ تھا کہ پاکستان نے شاید چین کے کہنے پر اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوا۔
پاکستان کو کانفرنس میں ایک بار پھر شرکت کی دعوت ایک ایسے موقع دی گئی ہے جب پاکستان اور امریکہ میں مختلف سطح کے را بطوں اور تعلقات میں گرم جوشی پائی جاتی ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد کو ایک مشکل اقتصادی صورت حال کا بھی سامنا ہے۔
ایک طرف پاکستان عالمی مالیاتی ادارے آئی آیف سے بیل آوٹ پیکج کی بحال کرنے کے کوشاں اور دوسری جانب پاکستان اپنے دوست ممالک سے بھی معاونت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
SEE ALSO: جمہوریت کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت میں چین کا امکانی کردار ہے، ہندوستان ٹائمزامریکہ نے چین کے بجائے تائیوان کو اس کانفرنس میں مدعو کیا ہے جس کی وجہ سے بعض مبصرین کی نظر میں پاکستان کے لیے اس کانفرنس شرکت کرنا ایک ایک مشکل معاملہ بن گیا ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے وائس آف امریکہ کی درخواست کے باوجود تاحال اس معاملے پر کوئی مؤقف نہیں دیا۔
’پاکستان کے لیے ایک صورتِ حال پیچیدہ ہو گئی ہے‘
دس دن قبل دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ سے جب نیوز بریفنگ کے دوران پوچھا گیا کہ کیا پاکستان امریکہ میں ہونے والے جمہوریت کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کرے گا یا نہیں؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ اس مرحلے پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان اس کانفرنس میں شرکت کرے گا یا نہیں لیکن چین کے بجائے اس کانفرنس میں تائیوان کو مدعو کرنے کی وجہ سے اسلام آباد کے لیےصورتِ حال پیچیدہ ہو گئی ہے۔
حسن عسکری نے مزید کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی واضع کرنے والوں کے لیے ایک مشکل صورتِ حال ہے ایک طرف پاکستان کو چین کو بھی ضرورت ہے جب کہ دوسری جانب وہ امریکہ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوتا تو واشنگٹن کوئی زیادہ ناراضی کا اظہار نہیں کرےگا کیوں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں جو تعاون ہے اس کا ایک پہلو افغانستان بھی ہے۔ کئی ایسے اموربھی ہیں پر جن پر تعاون کو جاری رکھنا دونوں کے مفاد میں ہے۔
SEE ALSO: صدر بائیڈن کی جمہوریت کانفرنس کا مقصد کیا ہے؟اس کے برعکس بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطوں کے پیشِ نظر پاکستان کی جمہوریت کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سابق سفارت کار اعزاز چوہدری کہتے ہیں اگر پاکستان سربراہی سطح پر اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرتا ہے تو پھر بھی شاید پاکستان علامتی طورپر وزیر خارجہ کی سطح پر اس کانفرنس میں وفد بھیج سکتا ہے تاکہ پاکستان ایک توازن کو برقرار رکھے تاکہ نہ تو چین ناراض ہو اور نہ ہی امریکہ کے لیے کوئی غلط تاثر جائے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اگر تائیوان کو شرکت کی دعوت نہ دی جاتی تو پاکستان اس کانفرنس میں شرکت سے کسی ہچکچاہٹ کامظاہرہ نہ کرتا۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اگرچہ گزشتہ ایک برس میں بہتری کی طرف گامزن ہیں پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی امریکہ کے متعدد دورے کر چکے ہیں۔
تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کسی بھی سطح پر اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرتا تو امریکہ ناراض تو نہیں ہو گا اور نہ ہی پاکستان اور مریکہ کے تعلقات خراب ہوں گے لیکن واشنگٹن یہ ضرور نوٹ کرے گا کہ پاکستان نے امریکہ کی دعوت قبول نہیں کی۔