انتخابات کے انعقاد کے بعد اب جب کہ نئی حکومت کا قیام صرف چند روز کے فاصلے پر ہے، ایسے میں نگراں حکومت نے ملک میں گیس کی قیمتوں میں67 فی صد تک اضافہ کیا ہے۔
نگراں دور حکومت میں یہ گیس کی قیمتوں میں دوسرا اضافہ ہے جب کہ ایک سال میں ہونے والا یہ تیسرا اضافہ ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک جانب اس بڑے اضافے سے جہاں مہنگائی کے شکار عام شہری مزید متاثر ہوں گے وہیں یہ اضافہ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے ناگزیر تھا۔
سرکاری اعلامیے کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رہائشی صارفین جو پروٹیکٹڈ کیٹیگری میں شمار ہوتے ہیں اور سب سے کم یعنی اعشاریہ 25 ہیکٹو کیوبک میٹر گیس استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے بھی قیمتوں میں 65 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔
اب انہیں فی ایم ایم بی ٹی یو 200 روپے گیس ملے گی جو پہلے وہ 121 روپے میں ملتی تھی۔
اسی طرح اوپر کے سلیبز کے لیے 40 سے 67 فی صد تک رقم میں اضافہ کیا گیا ہے۔
گیس کی قیمتوں میں نان پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے بھی پانچ سے 25 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔
اسی طرح کمرشل صارفین کے لیے بھی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ فرٹیلائزرز فیڈ کے لیے استعمال ہونے والے گیس کنکشنز کے لیے ہوا ہے جس سے اب ایسی فیکٹریوں کو گیس 580 کے بجائے 1597 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو میسر ہوگی۔
اسی طرح کمرشل صارفین، جنرل انڈسٹری، کیپٹوپاور پلانٹ، ایکسپورٹ انڈسٹری وغیرہ کے لیے بھی گیس کی قیمت بڑھ جائے گی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان فیکٹریوں میں تیار ہونے والی تمام ہی اشیا کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔
تاہم سرکاری اعلامیے کے مطابق سیمنٹ پلانٹس کے لیے گیس کی قیمتوں میں فی الحال اضافہ نہیں کیا گیا۔ نئی قیمتوں کا اطلاق یکم فروری سے ہو گا۔
SEE ALSO: مہنگائی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے: پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت کی رائےیاد رہے کہ کمرشل صارفین کے لیے چھ سال میں گیس کی قیمت میں یہ چھٹا اضافہ ہے اور اکتوبر 2018 سے اب تک گیس کی قیمت میں حکومت ان شعبوں میں لگ بھگ تین سے پانچ گنا اضافہ کر چکی ہے۔
توانائی امور کے ماہر محمد عارف کا کہنا ہے کہ اس اضافہ سے غریب سے لے کر امیر سب ہی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور ایک عام آدمی کے گیس کے بلوں میں جس کا استعمال بالکل معمولی نوعیت کا ہے 20 فی صد تک اضافہ ہوگا۔
ان کے بقول جس کے گھر ایک ہزار روپے گیس کا بل آتا تھا اب وہ 1200 روپے ادا کرے گا اور اسی طرح 4 ہزار روپے کے لگ بھگ جس کا بل آتا تھا اب وہ تقریباً پانچ ہزار روپے ادا کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا اثر مجموعی مہنگائی پر بھی پڑے گا کیوں کہ گھریلو صارفین کے ساتھ کمرشل اور انڈسٹریل صارفین کے لیے بھی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اضافہ کسی خاص مہینے یا موسم کے لیے نہیں ہے اس لیے صرف سردیوں ہی نہیں بلکہ گرمیوں میں بھی اب گیس مہنگی ہی ملے گی۔
گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیوں ناگزیر تھا؟
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گیس سیکٹر کا سرکلر ڈیبٹ یعنی گردشی قرضہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 2100 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا جو جی ڈی پی کا ڈھائی فی صد ہے اور اس میں گزشتہ سال کی نسبت 28 فی صد اضافہ دیکھا گیا تھا اور اس نقصان کی وجہ سے گیس کی قیمت کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گیس کی قیمت فروخت کم ہی تھی جس کی وجہ سے یہ خسارہ حکومت کو ہو رہا تھا اور پاکستان کو آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی معاہدے کی شرائط پوری کرنے میں سے ایک یہ بھی شامل ہے کہ گیس کی قیمتوں کا سالانہ دوبار جائزہ لے کر گیس ٹیرف کو ایڈجسٹ کیا جائے گا اور یہ مدت 15 فروری کو پوری ہو رہی تھی جب کہ اسی معاہدے کے تحت حکومت کو گیس سے بجلی پیدا کرکے انڈسٹری چلانے والے کیپٹو پاور پلانٹس کو بھی مرحلہ وار بند کرنا ہے جب کہ گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے دیے گئے پلان پر بھی عمل کرنا ہوگا۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف بورڈ سے 70 کروڑ ڈالرز کی منظوری؛ پاکستان کی معیشت کو کتنا فائدہ ہو گا؟آئی ایم ایف نے نگراں حکومت کی جانب سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں نومبر میں کیے گئے اضافے کو سراہا تھا اور اسے ملک کے توانائی سیکٹر کی بحالی کے لیے دلیرانہ فیصلہ قرار دیا تھا۔
توانائی کے ماہر محمد عارف خان کا کہنا تھا کہ مالیاتی نظم و ضبط نہ ہونے کے باعث گیس کی فراہمی پر آنے والے اخراجات اس کی قیمت سے زائد ہو رہے تھے اور انہیں پورا کرنے کے لیے قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں گیس چوری یا اس کا ضیاع ایک سنگین مسئلہ ہے جس سے ملک میں کام کرنے والی دونوں سرکاری گیس کمپنیوں یعنی سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی ناردرن گیس لمیٹڈ کو سالانہ اربوں کا نقصان ہوتا ہے اور مالی سال 2021 کے دوران ان کمپنیوں نے 15.85 فی صد اور 8.83 فی صد نقصانات اس مد میں کیے۔
ان کے بقول گیس کی چوری، ضیاع اور دنیا میں قیمتیں زیادہ ہونے کے باوجود انتہائی کم قیمت پر گیس کی فراہمی کے باعث حکومتی نقصانات بڑھتے جارہے ہیں اور اس کا اثر معیشت پر پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر قیمتوں میں یہ اضافہ نہ کیا جاتا تو پاکستان آئی ایم ایف کی جانب سے اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے تحت ایک ارب ڈالر سے زائد قسط سے محروم ہو سکتا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان میں قدرتی گیس پائپ لائن کے ذریعے گیس گھروں تک فراہم کی جاتی ہے اور یہ سہولت زیادہ تر شہری علاقوں میں ہے اور ملک کی کُل آبادی کا صرف 27 فی صد ہی پائپ لائنز کے ذریعے گیس حاصل کرتا ہے اور باقی لوگ ایل پی جی سیلنڈرز استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ ملک میں قدرتی گیس کے ذخائر مسلسل کم ہوتے جا رہے ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں گیس کی کھپت 1971 میں دو ارب 60 کروڑ کیوبک میٹر سے بڑھ کر 2021 میں 45 ارب کیوبک میٹر ہوچکی ہے۔
مقامی گیس کی پیداوار میں کمی کے باوجود گزشتہ دو دہائیوں میں کھپت میں 94 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ کئی برس سے گیس کی تقسیم اور ٹیرف کی پالیسیوں کی وجہ سے اس کی مانگ کو مصنوعی طور پر بڑھایا گیا ہے۔ جیسا کہ سال 2006 میں گیس کی طلب زیادہ اور رسد کم ہونے کے باوجود حکومت نے پیٹرول کے متبادل کے طور پر سی این جی کو ملک میں متعارف کرایا تھا اور اس کی قیمت بھی اس وقت نمایاں طور پر کم رکھی گئی تھی۔
اسی طرح ٹیرف کے غلط طریقۂ کار نے رہائشی اور کھاد کے صارفین کو غیر مؤثر استعمال کو فروغ دیتے ہوئے اصل قیمت سے بہت کم قیمت ادا کرنے کی اجازت دی۔ لیکن دوسری طرف دیگر صارفین کی دیگر کیٹیگریز میں اصل قیمت سے بھی زیادہ قیمت وصول کی گئی۔