پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کو اپنا نام گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے ایکشن پلان کے باقی رہ جانے والے 13 نکات پر عمل درآمد پر مشتمل ابتدائی رپورٹ بھجوا دی ہے۔
حکام پر امید ہیں کہ عالمی تنظیم کے اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں باقی ماندہ 13 نکات میں سے 11 پر عمل درآمد کی توثیق ہو جائے گی۔
ایف اے ٹی ایف اکتوبر میں ہونے والے اپنے اجلاس میں تجویز کردہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا اس میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کرے گی۔
وفاقی وزیر اقتصادی امور حماد اظہر نے مقامی ذرائع ابلاغ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ 27 نکاتی ایکشن پلان پر وسیع پیمانے پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف اجلاس میں پاکستان کو آئندہ اجلاس تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
'پابندی سے نظام میں بہتری لانے میں مدد ملی'
سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے نکات پر سنجیدگی سے خاصی حد تک عمل درآمد کیا ہے جس میں سب سے اہم قانون سازی تھی جو کرلی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی تنظیم کا پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنا مناسب اقدام نہیں تھا تاہم ان کے بقول اس عمل سے فوائد بھی حاصل ہوئے اور ملک کے معاشی، قانونی اور عدالتی نظام میں بہتری لانے کے مواقع بھی میسر آئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کی پارلیمان نے حالیہ دنوں میں ملک کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر لانے کے لیے دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام سے متعلق متعدد قوانین میں ترامیم کی منظوری دی تھی۔
معاشی اُمور کے تجزیہ کار فرحان بخاری کہتے ہیں کہ اسلام آباد نے گزشتہ ایک سال میں تیکنیکی، سفارتی اور سیاسی سطح پر خاصی پیش رفت کی ہے اور حالیہ قانون سازی کے بعد پاکستان پر سے بلیک لسٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
تاہم ان کے بقول یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ عالمی تنظیم پاکستان کو وائٹ لسٹ میں بحال کرتی ہے یا مزید اقدامات کرنے کا کہا جائے گا۔
فرحان بخاری کہتے ہیں کہ حکومت نے تعمیراتی سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر کرنے سے استثنٰی دیا ہے۔ لہذٰا یہ وہ نکتہ ہو سکتا ہے جس پر اعتراض لگایا جا سکتا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے سے متعلق قانون سازی کی پارلیمنٹ سے منظوری پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کے مطابق پاکستان نے تمام مراحل طے کر لیے ہیں اس لیے کوئی جواز نہیں بنتا کہ پاکستان کو اب بھی گرے لسٹ میں برقرار رکھا جائے۔
'ایف اے ٹی ایف سیاسی مقصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے'
ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے قیام کا مقصد غیر قانونی رقوم کی ترسیل اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنا ہے۔ لہذٰا اسے ممالک کو سزا دینے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ عالمی تنظیم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزرا اکثر اس خدشے کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ بھارت ایف اے ٹی ایف کو اسلام آباد کے خلاف سیاسی فوائد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
اس اعتراض پر ایف اے ٹی ایف کا یہ موقف رہا ہے کہ یہ ایک پالیسی ساز ادارہ ہے اور کوئی ملک اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔
خیال رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے اپریل میں پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے خلاف 13 فول پروف انتظامات سے متعلق رپورٹ جمع کرانے کے لیے پانچ ماہ کا اضافی وقت دیا تھا۔
ایف اے ٹی ایف نے 21 فروری کو یہ کہا تھا کہ پاکستان کو 27 نکاتی ایکشن پلان کو مکمل کرنے کے لیے دی گئی تمام ڈیڈ لائنز ختم ہو چکی ہیں اور صرف 14 نکات پر بڑے پیمانے پر مکمل عمل ہو سکا جب کہ 13 اہداف پر اب بھی کام ہونا باقی ہے۔
ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تیزی سے اپنے پورے ایکشن پلان کو جون 2020 تک مکمل کرے ورنہ اسے نگرانی کے دائرہ اختیار کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا جسے عام طور پر واچ ڈاگ کی بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔
پاکستان کو اس سے قبل 2012 سے 2015 تک گرے لسٹ میں رکھا گیا تھا لیکن انسدادِ منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی قوانین میں سخت اصلاحات سے متعلق قانون سازی کے بعد 2016 میں اسے خارج کر دیا گیا تھا۔