پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی نے سول اور عسکری نمائندوں پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات جاری رکھنے کا مینڈیٹ دے دیا ہے۔
پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے کالعدم ٹی ٹی پی سے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کی باضابطہ منظوری دیتے ہوئے ایک 'پارلیمانی اوورسائیٹ کمیٹی' بھی تشکیل دینے کی منظوری دی ہے جوآئینی حدود میں اس عمل کی نگرانی کی ذمہ دار ہوگی۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت منگل کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا جس میں مسلح افواج اور خفیہ اداروں کے سربراہان، ڈی جی آئی ایس آئی سمیت سیاسی جماعتوں کے سربراہان، وفاقی وزراء سمیت اعلیٰ ترین سول و سیاسی قیادت نے شرکت کی۔
اجلاس میں کورکمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے بھی شرکت کی، جنرل فیض حمید حالیہ دنوں میں کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے عمل میں شامل رہے ہیں۔
اجلاس میں پاکستانی فوج کے حساس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم، کورکمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی طرف سے شرکا کو مذاکراتی عمل کے بارے میں مکمل بریفنگ دی گئی۔
SEE ALSO: ٹی ٹی پی کا مذاکرات کا معاملہ پارلیمان میں لانے کے اعلان پر اظہارِ افسوس، حملوں کی دھمکیحکومت کا جاری کردہ اعلامیہ
اجلاس کے بعد رات گئے جاری کردہ حکومتی اعلامیے میں کہا گیا کہ دستورِ پاکستان کے تحت طاقت کا استعمال صرف ریاست کا اختیار ہے۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پاکستان نے غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کیں جن کا عالمی سطح پر اعتراف کیاگیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ افغان حکومت کی معاونت اور سول و فوجی حکام کی قیادت میں حکومت پاکستان کی کمیٹی کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ آئین پاکستان کے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے بات چیت کررہی ہے تاکہ علاقائی اور داخلی امن کو استحکام مل سکے۔
اجلاس نے قرار دیا کہ حتمی نتائج پر عمل درآمد دستور پاکستان کی حدود و قیود کے اندر ضابطے کی کارروائی کی تکمیل اور حکومت پاکستان کی منظوری کے بعد ہوگا۔
'صرف پاکستان کا آئین تسلیم کرنے پر ہی مذاکرات ہوں گے'
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ تھا اور اس میں صحافیوں کو بھی پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی، لیکن بعد میں صحافیوں کے احتجاج پر پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ نمبر ایک تک صحافیوں کو رسائی دی گئی۔
شام چار بجے شروع ہونے والا اجلاس تقریباً ساڑھے چار گھنٹے تک جاری رہا۔اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنزاور حساس اداروں کی طرف سے ارکان کو اب تک مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ بعدازاں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ارکان کمیٹی نے سوالات کیے جن کے تفصیلی جواب دیے گئے۔
اجلاس میں شریک بیشتر ارکان نے ان کیمرہ بریفنگ ہونے کی وجہ سے اس پر بات چیت سے انکار کیا تاہم اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ(ق) کے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ آج کے اجلاس میں تمام ارکان میں اتفاق کیا گیا کہ آئین کے تحت تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات ہونے چاہئیں۔
ان کے بقول اگر طالبان اپنی تنظیم تحلیل کردیں اور پاکستان کا آئین تسلیم کریں تو مذاکرات ہوں گے، اس پر تمام ارکان متفق تھے کہ اگر ایسا ہو تو مذاکرات ہونے چاہئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اجلاس میں فوجی قیادت کی طرف سے اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ حکومت یا پارلیمان اس حوالے سے جو بھی فیصلہ کرے گی اس پر من وعن عمل درآمد کیا جائے گا۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے صدر اور وزیراعظم کو بھی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور دونوں نے اس میں شرکت کی۔ اجلاس کے بعد پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیر اعظم سردار تنویر الیاس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں اسٹئیرنگ کمیٹی قائم کرنے کی منظوری دی گئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اہمیت کے معاملات پر ہم ایک ساتھ ہیں۔
سردار تنویر الیاس سے جب اجلاس میں شرکت کے لیے ان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے اجازت لینے کا پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ عمران خان صاحب کو بتا کر اس اجلاس میں شریک ہوئے ہیں۔
اجلا س میں پاکستان تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان، سینیٹرمحسن عزیز، سینیٹر شبلی فراز اور سینیٹر فیصل جاوید کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ لیکن انہوں نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ اجلاس میں نورعالم خان سمیت تحریکِ انصاف کے بعض منحرف ارکان نے شرکت کی تھی۔
اجلاس کے دوران سوال و جواب کا طویل سیشن ہوا جس میں ارکان نے آرمی چیف سے طالبان مذاکرات عمل کے علاوہ بھی بعض امور پر سوالات کیے جن کے آرمی چیف نے تفصیل سے جواب دیے، وزیراعظم شہباز شریف تمام وقت اجلاس میں موجود رہے جب کہ بعض وزرا اجلاس ختم ہونے سے پہلے ہی اٹھ کر چلے گئے تھے۔
حکومت پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کا پس منظر
پاکستان حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان رواں سال مئی میں مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ 18 مئی کوپشاور کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی قیادت میں اعلی سطح کے ایک وفد نےٹی ٹی پی کے رہنماؤں سے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مذاکرات کیے تھے۔ ٘مذاکرات کے اس پہلے دور کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ بندی میں توسیع کا اعلان کیا تھا۔
کابل میں دو روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بارے میں پاکستان نے سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا ۔ البتہ افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیر اطلاعات اور ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پوسٹ میں ان مذاکرات کی تصدیق کی تھی۔
ذبیح اللہ مجاہد نے فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت کو نتیجہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان حکومت کی ثالثی سے حکومتِ پاکستان اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان جاری مذاکرات مکمل ہوگئے ہیں۔ متعلقہ امور پر پیش رفت کے لیے مذاکرات کے دوران عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے میں جنوبی وزیرستان کے 32 رکنی جرگے کے علاوہ مالاکنڈ کی 16 افراد پر مشتمل کمیٹی نےبھی کردار ادا کیا ہے۔
SEE ALSO: امن مذاکرات: 'ٹی ٹی پی کے مطالبات تسلیم کرنے میں قانونی پیچیدگیاں حائل ہیں'سابق قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے بقول جرگے میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما اور سابق سینیٹر مولانا صالح شاہ کے سمیت کالعدم ٹی ٹی پی کے بانی کمانڈر بیت اللہ محسود کے سسر اکرام الدین محسود نمایاں کردار ادا کررہے تھے۔
کابل میں پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی رہنماؤں کے درمیان مذاکرات میں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ اور طالبان کی افغانستان میں عبوری حکومت کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
حکومتِ پاکستان نے باضابطہ طور پر مذاکرات میں پیشرفت کے حوالے سے کوئی بات ظاہر نہیں کی تاہم اس بارے میں آنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکام نے کالعدم ٹی ٹی پی کے مذاکرات کاروں کو کہا ہے کہ وہ اپنے آبائی ملک میں امن کی خاطر ریاستِ پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کو ترک کریں اور اپنے عسکری گروپ کو ختم کر دیں۔ اس کے جواب میں ٹی ٹی پی نے بھی اپنے مطالبات سامنے رکھے ہیں جن میں قبائلی اضلاع کی پرانی حیثیت بحال کرنے اور ان علاقوں میں اسلامی شرعی نظام نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ فریقین کے درمیان ماضی میں بھی مذاکرات ہوتے رہے ہیں جن میں کئی مرتبہ مذاکرات کے بعد باقاعدہ معاہدے کیے گئے لیکن ان پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ جس کے بعد دونوں جانب سے دوبارہ ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں شروع کی گئیں۔