پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر سکھر کی احتساب عدالت کی جانب سے رکنِ قومی اسمبلی اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما خورشید شاہ کی رہائی کے بعد سیاسی اور صحافتی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ اچانک پی پی رہنماؤں کو ریلیف کیوں مل رہا ہے؟
خیال رہے کہ خورشید شاہ سے قبل پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کو بھی ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات دیے جا چکے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے چھ ماہ میں قانون سازی سے متعلق عدالتی حکم کے بعد پی پی رہنماؤں کی رہائی کا عمل شروع ہوا، جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ پیپلزپارٹی اس ضمن میں حکومت کا ساتھ دے گی۔
سندھی روزنامہ 'عوامی آواز' کے ایڈیٹر انچیف ڈاکٹر عبدالجبار خٹک کا کہنا ہے کہ پسِ پردہ ڈیل کی باتوں سے قطع نظر حقائق پر ہی نظر ڈالیں تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالجبار خٹک کا کہنا تھا کہ بدقسمی سے پاکستان میں بلاامتیاز احتساب نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن مقدمات میں گرفتاریاں بھی ہدف بنا کر کی جاتی ہیں۔ لہٰذا، عدالتیں عدم شواہد یا کمزور تفتیش کے باعث ملزمان کو ریلیف دے دیتی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالجبار خٹک کے مطابق، دنیا میں وائٹ کالر جرائم سے ایسے نہیں نمٹا جاتا جیسے ہمارے ملک میں ہوتا ہے۔ وائٹ کالر کرائم کا کھوج لگانا اور ملزمان کے خلاف شواہد اکھٹے کرنے کے لیے درکار صلاحیت نیب کے پاس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیب کو اسی لیے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ملک کے معروضی حالات دیکھے جائیں تو یہ بھی حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کے لیے حکومت کو اپوزیشن کی حمایت درکار ہے۔
صحافی اور کالم نگار قاضی آصف کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو نیب کی جانب سے دائر کئے گئے ریفرنسز میں مواد کم اور سیاسی انتقام زیادہ نظر آتا ہے۔ ان کے بقول، بیشتر ریفرنسز میں تحقیقی مواد نہ ہونے کے برابر ہے حتیٰ کہ بعض ریفرنسز محض اخباری تراشوں اور خیالات کی بنیاد پر بنائے گئے۔
قاضی آصف کا کہنا ہے کہ پہلے الزام عائد کیا جاتا ہے پھر ملزم کو بدنام کیا جاتا ہے اور پھر ثبوت کی باری آتی ہے۔ ان کے بقول، سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدموں کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔
قاضی آصف کہتے ہیں کہ یہ صورتِ حال موجودہ حکومت کے حق میں بھی نہیں جاتی جو کرپشن کے خلاف جنگ کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ نیب بطور ادارہ ان افراد کے خلاف فی الحال ٹھوس ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
خورشید شاہ ضمانت پر رہا نہ ہو سکے
دریں اثنا، نیب کی جانب سے خورشید شاہ کی رہائی کو اعلٰی عدلیہ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فی الحال خورشید شاہ کی رہائی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔
اس سے قبل سکھر کی احتساب عدالت کے جج امیر علی مہیسر کی جانب سے سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کی جانب سے بارہا تفتیشی افسر کو کہا جاتا رہا کہ ملزم کے خلاف ریفرنس دائر کیا جائے۔ لیکن اس سے اجتناب کیا جاتا رہا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تین ماہ بعد بھی ملزم کے خلاف کوئی ریفرنس سرے سے عدالت کے سامنے موجود ہی نہیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق، ملزم کو غیر معینہ مدت کے لیے قید نہیں رکھا جا سکتا۔ عدالت نے خورشید شاہ کو 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ خورشید شاہ کو 17 ستمبر کو نیب حکام نے اسلام آباد سے گرفتار کیا تھا۔ ان پر ظاہر شدہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
تحقیقات کے دوران خورشید شاہ کو سکھر میں قائم احتساب عدالت میں پہلی بار 21 ستمبر کو پیش کیا گیا، جس پر عدالت نے ملزم سے تحقیقات مکمل کرنے کے لیے جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا تھا۔
نیب کا ریمانڈ مکمل ہونے پر نو نومبر کو خورشید شاہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ گرفتار کے تین ماہ بعد بھی تفتیشی افسر نے منگل کو عدالت کے روبرو ریفرنس دائر کرنے اور مزید ریمانڈ کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔