وہ کھلاڑی جن کا کریئر بنانے میں پی ایس ایل کا بڑا ہاتھ ہے

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل)کا آٹھواں ایڈیشن 13 فروری سے شروع ہورہا ہے جس میں ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کی بڑی تعداد حصہ لے گی۔

سال 2016 میں اس لیگ کا پہلا ایڈیشن منعقد ہوا تو اس میں کئی سینیئر اور نوجوان کھلاڑی شامل تھے لیکن کچھ کھلاڑی ایسے تھے جنہوں نے پی ایس ایل کا پہلا ایڈیشن کھیل کر ہی نیشنل ٹیم میں جگہ بنائی۔

لاہور قلندرز کی نمائندگی کرنے والے فخر زمان نے پی ایس ایل ون میں اپنی دھواں دھار بیٹںگ سے سلیکٹرز کو اپنی جانب متوجہ کیا اور انہیں اپنی کارکردگی کی بدولت نیشنل ٹیم کا حصہ بننے کا موقع ملا۔

جب 2017 میں چیمپئنز ٹرافی کے لیے آؤٹ آف فارم احمد شہزاد کی جگہ فخر زمان کو قومی ٹیم میں اوپننگ کی ذمہ داری سونپی گئی توانہوں نے اسے احسن طریقے سے نبھا کرفائنل میں بھارت کے خلاف میچ وننگ سینچری بنائی۔

اسی طرح پی ایس ایل کے پہلےسیزن میں پشاور زلمی کا حصہ بننے والے حسن علی نے بھی اپنے انٹرنیشنل ڈیبیو سے قبل پی ایس ایل ڈیبیو کیا تھا۔

چیمپئنزٹرافی میں ان کی شاندار کارکردگی دوسرے کھلاڑیوں سے بہتر تھی اور 5 میچز میں 13 وکٹیں حاصل کرکے وہ 'مین آف دی سیریز' قرار پائے تھے۔

کچھ یہی حال پاکستان ٹیم کے آل راؤنڈر محمد نواز کا تھا جو پہلے پی ایس ایل کے کامیاب ترین بالرز میں سے ایک تھے تاہم قومی ٹیم میں عماد وسیم کی موجودگی کی وجہ سے چیمپئنز ٹرافی کے لیے ٹیم کا حصہ نہ بن سکے لیکن بعدازاں انہوں نے اپنی کارکردگی سے ٹیم میں مستقل جگہ بنا لی ہے۔

فاسٹ بالرز محمد حسنین اور حارث روؤف بھی پی ایس ایل میں اچھی کارکردگی دکھا کر نیشنل ٹیم تک پہنچنےمیں کامیاب ہوئے۔میڈیم پیسر شاہنواز داہانی بھی پی ایس ایل کی کارکردگی کی بدولت نیشنل ٹیم میں جگہ بنانے والوں میں شامل ہیں۔

انگلینڈ کے ڈیوڈ ملان کو ٹی ٹوئنٹی کا کامیاب بلے باز سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے 2017 میں انگلینڈ کی پہلی بار نمائندگی سے قبل پی ایس ایل میں حصہ لیا تھا۔ وہ پشاور زلمی کی اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے ایونٹ کے دوسرے ایڈیشن میں فتح حاصل کی، لیکن وہ واحد کھلاڑی نہیں تھے جنہیں پی ایس ایل سے شہرت ملی۔

حال ہی میں انگلینڈ کی نمائندگی کرنے والے ہیری بروک نے شائقین کو اپنا مداح پی ایس ایل کے ذریعے بنایا۔ لاہور قلندرز کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے گزشتہ سیزن میں نہ صرف 48 گیندوں پر سینچری اسکور کی تھی بلکہ ٹیم کو چیمپئن بنانے میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔

جب ٹم ڈیوڈ نے پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن میں لاہور قلندرز کی نمائندگی کی تو اس وقت انہیں لوگ سنگاپور کے ایک کرکٹر کی حیثیت سے جانتے تھے۔ لیکن 2022 میں ملتان سلطانز کی جانب سے اپنی جارحانہ بلے بازی اور شاندار فیلڈنگ سے وہ سب کو اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔

نہ صرف انڈین پریمیئر لیگ نے ٹم ڈیوڈ کو پی ایس ایل کے بعد اپنی لیگ کا حصہ بنایا بلکہ 2022 میں وہ آسٹریلیا کی بھی نمائندگی کرنے میں کامیاب ہوئے۔

رواں برس ٹم ڈیوڈ آسٹریلیا کی جانب سے مصروف ہونے کی وجہ سے پی ایس ایل کے شروع کے میچ میں شریک نہیں ہوں گے لیکن تین مارچ کے بعد وہ ایکشن میں نظرآئیں گے۔

وہ کھلاڑی جن کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کی وجہ پی ایس ایل کارکردگی تھی

ایک طرف وہ کھلاڑی ہیں جنہیں پی ایس ایل نے انٹرنیشنل ڈیبیو کروایا تو دوسری جانب ایسے کھلاڑی بھی ہیں جنہیں پی ایس ایل نے دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ کی طرف دھکیلا۔ ایسے کھلاڑیوں میں سب سےاہم نام انگلینڈ کے موجودہ اوپنر اورجارح مزاج بلے باز ایلکس ہیلز کا ہے، جنہوں نےانگلینڈ کی ٹیم سے باہر ہونے کے بعد پی ایس ایل کو واپسی کا ذریعہ بنایا۔

انگلش ٹیم کے موجودہ کپتان بین اسٹوکس کے ساتھ ایک جھگڑے کا حصہ ہونے اور بعد میں ممنوعہ ادویات کے استعمال کی وجہ سے انگلینڈ کرکٹ بورڈنے ایلکس ہیلز کو انٹرنیشنل کرکٹ سے باہر کردیا تھا جس کے بعد انہوں نے مختلف لیگز میں کھیل کر خود کو اِن رکھا اوربالآخر جیسن روئے کے آؤٹ آف فارم ہونے کے بعد واپس نیشنل ٹیم کا حصہ بنے۔

ایلکس ہیلز

شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اگلے ماہ ہونے والے انگلینڈ اور بنگلہ دیش کے درمیان شیڈول ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سیریز میں شرکت کے بجائے پی ایس ایل کا حصہ بننے کو ترجیح دی ہے۔

ایلکس ہیلز تین مارچ کے بعد پی ایس ایل کا حصہ ہوں گے اور اسلام آباد یونائیٹڈ کی نمائندگی کریں گے۔

جنوبی افریقہ کے رائیلی روسو ون ڈے انٹرنیشنل میں اپنے ملک کی جانب سے تین سینچریاں بناکر ٹاپ کرکٹرز میں شامل تھے۔ لیکن 2017 میں کولپاک ڈیل کرکے انہیں جنوبی افریقہ کی نمائندگی سے ہاتھ دھونا پڑا ، جس کے بعد وہ مختلف لیگز میں کھیل کر بطور ٹی ٹوئنٹی اسپیشلسٹ اپنا لوہا منوارہے تھے۔

یہ پی ایس ایل ہی تھی جس میں انہوں نے ملتان سلطانز کی جانب سے صرف 43 گیندوں پر سینچری اسکور کرکے سب کی توجہ حاصل کی۔ اب تک پی ایس ایل میں 1400 سے زائد رنز بناکر رائیلی روسو ٹاپ بلےبازوں کی فہرست میں شامل ہیں ۔

جب مسلسل اچھی کارکردگی کی وجہ سے انہیں تقریبا چھ سال کے وقفے کے بعد جنوبی افریقی ٹیم میں شامل کیا گیا تو انہوں نے انگلینڈ کے خلاف ناقابل شکست 96 رنز بناکر اپنی واپسی کا اعلان کیا۔ بعدازاں بھارت اور بنگلہ دیش کے خلاف انہوں نے دو ٹی ٹوئنٹی سینچریاں اسکور کرکے اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کیا۔

ویسے تو فل سالٹ نے پی ایس ایل میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی نمائندگی کرتے ہوئے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی لیکن وہ گزشتہ سیزن کی فاتح ٹیم کے رکن تھے جس کی وجہ سے ان کی انگلش ٹیم میں واپسی ہوئی۔

گزشتہ سال نیدرلینڈز کے خلاف ون ڈے انٹرنیشنل سینچری ہو یا پاکستا ن کے خلاف ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں 88 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز، انگلش ٹیم میں واپسی پر ان کی اڑان میں پی ایس ایل کی اہمیت کو بھلایا نہیں جاسکتا۔

ٹیمال ملز کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سات سالوں میں چار ٹیموں کی نمائندگی کی۔بائیں ہاتھ سے تیزگیندیں پھینکنے والے بالر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے دو، کراچی کنگز اور پشاور زلمی کا ایک ایک سیزن میں حصہ رہے۔

یہی نہیں 22 پی ایس ایل میچز میں 28 وکٹیں حاصل کرنے کی وجہ سے وہ تقریبا پانچ سال بعد انگلش ٹیم میں بھی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے اور 2021 میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انگلش ٹیم کے رکن تھے۔

ڈیوڈ ویزا نے بھی پی ایس ایل کو ایسے اپنایا جیسے وہ کوئی مقامی کھلاڑی ہوں۔ اپنی جارح مزاج بلے بازی اور نپی تلی بالنگ سے پہلے انہوں نے شائقین کو اپنا مداح بنایا پھر گزشتہ ایڈیشن میں لاہور قلندرز کو ایونٹ جتوانے میں کامیاب ہوئے۔

سابق جنوبی افریقی کرکٹر نے کولپاک ڈیل کے بعد اپنے انٹرنیشنل کریئر کو تو خیرباد کہا لیکن پی ایس ایل میں شاندار کارکردگی کے بعد ان کی قومی ٹیم میں واپسی کا اعلان ہوا، لیکن اس بار وہ جنوبی افریقی نہیں، نمیبیا کی ٹیم کی نمائندگی کررہے تھے۔