دس دن قبل وہ اتوار کا دن تھا، جب حیدرآباد کے صدر بازار کے رابی کمپلیکس کے باہر ہزاروں افراد جمع ہوئے۔ اس مجمعے کا مطالبہ تھا کہ اس عمارت میں کام کرنے والے اس ہندو خاکروب کو ان کے حوالے کیا جائے، جس نے مبینہ طور پر مسلمانوں کی مقدس کتاب کی مبینہ بے حرمتی کی ہے۔
جب مجمع زیادہ مشتعل ہونے لگا اور پولیس کے بس سے یہ بات باہر جاتی نظر آئی، تو ریپڈ رسپانس فورس (آر آر ایف) اور پھر نیم فوجی دستوں کو بھی طلب کرنا پڑا البتہ وہاں جمع افراد کے اشتعال میں کمی نہ آئی۔
اس دوران پرتشدد احتجاج اور جلاو گھیراؤ کیا گیا اور ہنگامہ آرئی بھی ہوئی۔ بہرحال پولیس نے مبینہ ملزم ہندو خاکروب کو گرفتار کر لیا تھا اور اسے اگلے روز مقامی عدالت میں پیش بھی کیا، جس کے بعد حیدرآباد کے اس علاقے میں حالات کچھ معمول پر آئے۔
پولیس نے اس واقعے کی تفتیش شروع کی، تو ایک ہفتے میں تحقیقات کا سرا کہیں اور ہی نکل پڑا۔
پولیس نے اسی محلے میں ایک اور شخص کو گاڑیوں کے شیشے توڑ کر چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔پولیس ذرائع کاکہنا ہے کہ گرفتاری کے دوران ہی وہ کچھ بہکی بہکی باتیں کررہا تھا۔
SEE ALSO: توہینِ مذہب کا الزام؛ حیدرآباد میں مشتعل ہجوم سے ہندو خاندانوں کو کیسے بچایا گیا؟تحقیقات پر مامور اہلکاروں نے کڑی سے کڑی ملائی تو پولیس کو شک ہوا اور اسی علاقے میں ایک گھر پر چھاپہ مارا گیا۔ اس چھاپے میں پولیس اہلکاروں کو مسلمانوں کی مقدس کتاب کے مزید اوراق بھی ملے۔ پولیس نے اس کے بعد گرفتار ملزم کے والدین کو بھی شامل تفتیش کر لیا۔
توہینِ مذہب کے اس واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے حیدر آباد کینٹ کے تھانے کے ایس ایچ او اعجاز لاکھو بتاتے ہیں کہ پولیس اہلکاروں نے انتہائی مستعدی سےسارے واقعے کی تفتیش کی، جس سے شہر بھر میں غم و غصہ اور اشتعال پھیلا تھا جب کہ امن عامہ کی سنگین صورتِ حال پیدا ہوئی تھی۔
پولیس حکام کے مطابق اس کیس کے مرکزی ملزم کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جس کے خلاف پولیس کے بقول ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔گرفتار ملزم مسلمان اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے البتہ اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے۔
گرفتار ملزم نے پولیس کو دیے گئے بیان میں جرم کا اعتراف بھی کر لیا۔ملزم کے بیان کے بعد اس کے گھر سے تمام شواہد اور ثبوت جمع کیے گئے، جس سے اس کے بیان کی تصدیق ہوئی۔
دوسری جانب پولیس نے کیس میں پہلے سے گرفتار ہندو شخص کو بے گناہ قرار دے دیا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان: مقامی رپورٹر پر توہینِ مذہب کا الزام'صحافی کی سلامتی خطرے میں ڈال دی'پولیس نے کیس کی تفتیش مکمل ہونے کے بعد مذہبی علما سے بھی رابطہ کیا اور انہیں حقائق سے آگاہ کیا۔ملزم کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ بے روزگار ہے جب کہ منشیات کا بھی عادی ہے۔
ایس ایچ او تھانہ کینٹ اعجاز لاکھو کا کہنا ہے کہ تفتیش مکمل ہونے کے بعد ملزم کے خلاف چالان عدالت میں جمع کرایا جا رہا ہے جس کے بعد مزید کارروائی عدالت کا اختیار ہے۔
دوسری جانب کیس میں پہلے سے گرفتار ہندو شخص کے والد کا کہنا ہے کہ وہ پولیس اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شکر گزار ہیں، جنہوں نے انصاف پر مبنی تحقیقات کیں اور اصل حقائق سامنے لائے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ثابت ہو گیا ہے کہ ان کا بیٹا بےقصور ہے۔ ان کے بقول وہ پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ اگر ان کا بیٹا قصور وار ہوا تو اسے بے شک سخت سے سخت سزا دی جائے۔
ضلعی ہندو پنچایت کمیٹی کے سرپرست پرکاش ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں رہنے والی ہندو برادری اس واقعے کے بعد خوف زدہ تھی۔ اس وقت مشتعل ہجوم محض الزام کی بنیاد پر ہندو خاندانوں کو قتل کرنے پر تلا ہوا تھا البتہ بعد میں پولیس کی تفتیش سے ثابت ہوا ہے کہ یہ کام کسی ہندو کا نہیں تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا مزید کہنا تھا کہ شفاف تحقیقات سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہندو برادری کا اعتماد بڑھا ہے۔ انہوں نے ان مسلمان شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بھی شکریہ ادا کیا، جو اس مشکل وقت میں ثابت قدمی سے اقلیتی برادری کے تحفظ کے لیے ڈٹے رہے تھے اور مشتعل افراد کو اس عمارت میں ہندوؤں کے گھروں تک پہنچنے سے روکے رکھا۔
توہینِ مذہب کے واقعات کو پاکستان میں انتہائی حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے اگرچہ اس کے لیے موجود قانون کے تحت سزائیں ملنے کی شرح انتہائی کم رہی ہے جب کہ اس جرم کی سب سے بڑی سزا یعنی سزائے موت کسی مجرم کونہیں دی گئی۔ تاہم قانون کے غلط استعمال کے واقعات عام ہیں اور محض الزامات کی بنیاد پر ہی توہینِ مذہب کے ملزمان کو بے دردی سے قتل بھی کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کو وحشیانہ تشدد کے بعد قتل کرنے کا واقعہ سب سے نمایاں ہیں۔
ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ توہینِ مذہب کے سنگین الزامات عائد کرکے ذاتی دشمنی میں انتقام لیا جاتا ہے۔ اس طرح کے ایک اور واقعے میں سال 2017 میں مردان کی خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان نامی طالب علم کو قتل کر دیا گیا تھا تاہم بعد میں سامنے آیا تھا کہ وہ واقعہ توہینِ مذہب کا نہیں تھا بلکہ یہ ذاتی دشمنی پر مبنی تھا۔