سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب میں الیکشن اکتوبر تک مؤخر کرنے کے خلاف دائر درخواست پر لارجر بینچ تشکیل دے کر وفاق حکومت، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے گورنرزکو نوٹس جاری کر دیے ہیں جب کہ الیکشن کمیشن سے بھی جواب طلب کر لیا گیا ہے۔
تحریکِ انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ سماعت کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں تحریکِ انصاف کی جانب سے دائر درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کے آٹھ اکتوبر کو الیکشن کرانے کے اعلامیے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 30 اپریل کو ہی پنجاب میں الیکشن کا انعقاد کیا جائے۔
درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔
خیال رہے کہ گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے صوبے میں 28 مئی کو انتخابات کرانے کی تاریخ دی البتہ بعد ازاں گزشتہ ہفتے انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو ایک خط ارسال کیا کہ صوبے میں آٹھ اکتوبر کو الیکشن کرائے جائیں۔
گورنر نے صوبے میں الیکشن مؤخر کرنے کی وجہ امنِ عامہ کی صورتِ حال کو قرار دیا تھا۔
اس حوالے سے تاحال کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
پیر کی عدالتی کاروائی کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کی تاریخ کو بڑھا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ استفسار بھی کیا گیا کہ کیا آئین تاریخ بڑھانے کی اجازت دیتا ہے؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ صدر نے بھی الیکشن کی تاریخ 90 روز سے آگے کی دی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انتہائی افسوناک صورتِ حال ہے کہ فریقین دست و گریباں ہیں۔
سپریم کورٹ نے تحریکِ انصاف اور حکومت سے یقین دہانی بھی طلب کر لی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف اور حکومت یقین دہانی کرائے کہ شفاف انتخابات چاہتے ہیں یا نہیں؟
چیف جسٹس کے مطابق عدالت ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی جب تک تمام فریقین راضی نہ ہوں۔ آئین کی تشریح حکومتیں بنانے یا حکومتیں گرانے کے لیے نہیں ہوتی۔ آئین کی تشریح کا مقصد عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہے۔
SEE ALSO: پی ٹی آئی نے پنجاب میں الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
تحریکِ انصاف کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ کو انتخابات کی تاریخ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے آٹھ مارچ کو پنجاب میں انتخابات کا شیڈول جاری کیا تھا۔ گورنر خیبر پختونخوا نے عدالتی احکامات کی حکم کی عدولی کرتے ہوئے تاریخ کا اعلان نہیں کیا جب کہ الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے نیا شیڈول جاری کر رکھا ہے۔
علی ظفر ایڈووکیٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے تین بار خلاف ورزیاں کیں۔ 13 مارچ کو الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ کو منسوخ کیا۔ الیکشن کمیشن نے آٹھ اکتوبر کی نئی تاریخ دی جب کہ اس کے پاس نئی تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن نے 90 روز میں الیکشن کرانے کی مقررہ حد کی بھی خلاف ورزی کی۔
تحریکِ انصاف کے وکیل نے مزید کہا کہ آئین میں الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے یا تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا۔ 90 روز سے زیادہ کی تاریخ کی آئین اجازت نہیں دیتا۔ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کو نظر انداز کیا۔
اس پر بینچ میں شامل جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ عدالت سے کیا چاہتے ہیں؟
وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پر عمل درآمد کرائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد ہائی کورٹ کا کام ہے۔
SEE ALSO: پنجاب اسمبلی کے 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتویتحریکِ انصاف کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ نے الیکشن کمیشن کے اقدامات اور توجیہہ پر مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے لیے فنڈز نہ ہونے کی وجہ مان لی تو انتخابات کبھی نہیں ہوں گے۔ معاملہ صرف عدالتی احکامات کا نہیں جب کہ دو صوبوں کے الیکشن کا معاملہ ایک ہائی کورٹ نہیں سن سکتی۔ سپریم کورٹ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کر چکی ہے۔
تحریکِ انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا اختیار اب بھی ختم نہیں ہوا۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا۔ سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔
علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ کیا ضمانت ہے کہ اکتوبر میں سیکیورٹی صورتِ حال بہتر ہوگی۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن صدر کی دی گئی تاریخ کو ختم کر سکتا ہے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی تاریخ میں الیکشن کی تاریخ بڑھانے کی مثالیں موجود ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر بھی الیکشن تاخیر سے ہوئے۔ انتحابات صوبے کی عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔
SEE ALSO: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، حکومت کا ایک ہی روز الیکشن کرانے پر اصرارانہوں نے مزید کہا کہ اہم ایشوز اس کیس میں شامل ہیں جس میں سے فیصلے پر عمل درآمد بھی ایک معاملہ ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت تاریخ بڑھانے کو قومی سطح پر قبول کیا گیا۔ اس وقت تاریخ بڑھانے کے معاملے کو کہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 1988 میں نظام حکومت تبدیل ہونے کی وجہ سے الیکشن میں تاخیر ہوئی۔ کیا آئین میں نگراں حکومت کی مدت کے تعین کی کوئی شق موجود ہے۔
اس پر تحریکِ انصاف کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ معاملہ 90 روز میں الیکشن کرانے سے بھی منسلک ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا صدر کی جانب سے دی گئی تاریخ 90 روز میں تھی یا نہیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت منگل کی صبح 11 بجے تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ نے وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو چیف سیکریٹریز کے ذریعے نوٹس جاری کر دیے۔
اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو بھی نوٹس جاری کیا گیا اور اس سے جواب طلب کیا گیا۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے رواں ماہ ہی پنجاب میں انتخابات کے لیے 30 اپریل کی تاریخ کا شیڈول جاری کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن نے صوبائی اسمبلی کے آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات رواں سال اکتوبر تک ملتوی کر دیے تھے۔کمیشن نے انتخابی عمل اور امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کی عدم دستیاب کو جواز بنایا تھا۔