سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کو خلیجی ملکوں کی سربراہی کانفرنس میں مدعو کیا ہے۔
قطر کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق شیخ تمیم کو سعودی شاہ کی طرف سے 9 دسمبر کو ریاض میں ہونے والے سربراہی اجلاس کا تحریری دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔
قطر کی حکومت نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ آیا شیخ تمیم نے دعوت نامہ قبول کرلیا ہے یا نہیں اور سربراہی اجلاس میں اس کا کس سطح کا وفد شریک ہوگا۔
سعودی عرب اور قطر کے تعلقات جون 2017ء سے کشیدہ ہیں جب سعودی حکومت اور اس کے اتحادی عرب ملکوں نے دوحا پر دہشت گردوں کی مدد کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے ساتھ سفارتی، تجارتی اور مواصلاتی رابطے منقطع کرلیے تھے۔
SEE ALSO: قطر کا ترکی میں 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلانسعودی عرب کے اس اقدام کو چھ خلیجی ملکوں کی نمائندہ تنظیم 'جی سی سی' کے دو دیگر ارکان متحدہ عرب امارات اور بحرین کی بھی حمایت حاصل تھی جب کہ مصر نے بھی سعودی حکومت کے موقف کی حمایت میں قطر سے اپنے تعلقات توڑ لیے تھے۔
گزشتہ سال کویت میں ہونے والے 'جی سی سی' کے سربراہ اجلاس میں قطر کے امیر کی شرکت کے ردِ عمل میں سعودی عرب، بحرین اور عرب امارات کے سربراہان شریک نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے اجلاس میں اپنی نمائندگی کے لیے وزارتی سطح کے وفود بھیجے تھے۔
قطر اور اس کے خلیجی پڑوسیوں کے درمیان مصالحت کی کویت اور امریکہ کی کوششیں بھی تاحال بار آور ثابت نہیں ہوئی ہیں۔
قطر کو سعودی شاہ کا دعوت نامہ ایسے وقت موصول ہوا ہے جب ایک روز قبل ہی قطر نے اچانک عالمی منڈی میں تیل بیچنے والے ملکوں کی نمائندہ تنظیم 'اوپیک' کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔
SEE ALSO: ٹرمپ کا شاہ سلمان کو ٹیلی فون، قطر تنازع حل کرنے پر زورقطر نے کہا تھا کہ وہ اب گیس کی پیداوار پر زیادہ توجہ دینا چاہتا ہے۔ لیکن قطر کے اس اقدام کو سعودی عرب کی پابندیوں کا جواب قرار دیا جا رہا ہے جو عملاً 'اوپیک' کا کرتا دھرتا ہے۔
قطر 57 سال سے 'اوپیک' کا رکن ہے جس کے ارکان عالمی منڈی میں تیل کی فراہمی کی مقدار اور اس کی قیمتوں کا تعین کرتے ہیں۔
قطر کے اس اعلان کے بعد سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کے اس خدشے میں اضافہ ہوا تھا کہ خلیجی ملکوں کے درمیان جاری تنازع کا ریاض میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں بھی کوئی حل نہیں نکلے گا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتیں بارہا کہہ چکی ہیں کہ قطر کے ساتھ ان کے تنازع ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ قطر کے وزیرِ خارجہ نے بھی گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ خلیجی پڑوسیوں کے ساتھ جاری بحران جلد حل ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
SEE ALSO: اتحاد بنانے کی قطر کی تجویز سے ہمیں کوئی سروکار نہیں: سعودی عرب'خلیج تعاون کونسل' 1980ء میں قائم کی گئی تھی جس کا مقصد خطے کے دو بڑے ملکوں –ایران اور عراق – کے چھوٹے خلیجی ملکوں پر اثر و رسوخ کو کم کرنااور مختلف علاقائی اور عالمی معاملات پر مشترکہ موقف اپنا نا تھا۔
لیکن قطر کے ساتھ جاری تنازع کے بعد یہ تنظیم علاقائی اور عالمی معاملات میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کر پا رہی ہے۔