امریکہ کی وزیر تجارت جینا ریمونڈو نے اپنے چینی ہم منصب وانگ وینٹاؤ سے جمعرات کو ملاقات کی تھی، جو دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان مہینوں میں کابینہ کی سطح کی پہلی بات چیت ہے۔
امریکی وزیر تجارت کے دفتر نےدونوں اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان تبادلہ خیال کو واضح اور ٹھوس قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ ملاقات میں برآمدی پالیسیوں، تجارت اور سرمایہ کاری کے ان مسائل کو اٹھایا گیا جو دو طرفہ تعلقات کو کشیدہ کر رہے ہیں۔
وزرا کی سطح پر ہونے والی اس ملاقات کے علاوہ چینی وزییر وانگ نے جمعے کو امریکی یاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں ایشیا پیسفک اکنامک فورم کے تجارتی وزراء کے اجلاس کے موقع پر امریکی تجارتی نمائندہ کیتھرین تائی سے بھی ملاقات کی تھی۔
دونوں ملکوں کے اہلکاروں کی یہ ملاقاتیں صدر جو بائیڈن کی جانب سے فروری میں امریکہ کے ایک لڑاکا طیارے کے امریکی سرزمین پر ایک مشتبہ چینی جاسوسی غبارے کو مار گرانے کے واقع کے بعد تعلقات میں برف پگھلنے کا اشارہ دینے کے بعد ہوئی ہیں۔
چینی غبارے کے واقعے کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کا بیجنگ کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم، وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ سفارت کار وانگ یی کے درمیان 10 اور 11 مئی کو ہونے والی ملاقات میں دونوں فریق اس معاملے کو پس پشت ڈالتے نظر آئے تھے۔
قومی سلامتی کے مشیر سلیوان نے 17 مئی کو پریس بریفنگ کے دوران وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ غبارے کو گرانا "ایک واضح پیغام تھا کہ ہم امریکی فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔" "ہم نے اپنی بات بتا دی ہے۔"
دوطرفہ روابط اب کیوں بڑھائے جارہے ہیں؟
دونوں ملکوں کے درمیان روابط کے حوالے سے سٹمسن سینٹر میں چائنا پروگرام کی ڈائریکٹر یون سن کہتی ہیں کہ امریکہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ چین کے ساتھ بڑی طاقتوں کے مقابلے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور اس کے علاوہ امریکہ چین کا موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے سے لے کر نشہ آور دوا 'فینٹینیل' کی اسمگلنگ کو روکنے تک مختلف امور پر تعاون حاصل کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ، واشنگٹن یوکرین کے خلاف جنگ میں بیجنگ کو ایک تعمیری قوت کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔
دریں اثنا، چین ان مسائل پر لین دین کے تعلقات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے جن کی اسے پرواہ ہے۔ مثال کے طور پر، یون سین نے وی او اے کو بتایا کہ چین ہائی ٹیک انڈسٹری کے شعبے میں مخصوص صنعتوں، کمپنیوں یا مصنوعات پر بات چیت کی گنجائش دیکھتا ہے ہر چند کہ یہ ناگزیر ہے کہ امریکہ چین پر اپنا انحصار کم کرے گا یا اسے ختم کر دے گا۔
چین کے لیے قومی سلامتی کونسل کے سابق ڈائریکٹر ڈینس وائلڈر، جو اب عالمی سطح پر یو ایس چائنا ڈائیلاگ کے لیے انیشیٹو کے جارج ٹاون یونیورسٹی میں سینئر فیلو ہیں، نے کہا کہ دونوں ملکوں کے رہنماؤں کی ملاقات کا ایک مشترکہ محرک اقتصادی تعاون کی تنظیم ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (اے پیک) کی کانفرنس ہے جس کی میزبانی امریکہ نومبر میں سان فرانسسکو میں کرے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈینس وائلڈر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چین کے صدر شی جن پنگ کا خیال ہے کہ چین 'اے پیک' کے بانی ممبروں میں سے ایک ہے، اس لیے وہاں موجود ہونا قومی وقار کے نقطہ نظر سے ان کے لیے اہم ہے۔
دوسری طرف صدر بائیڈن چاہتے ہیں کہ اس کانفرنس میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے سوا زیادہ سے زیادہ عالمی رہنما شرکت کریں۔
اگر چین کے صدر ژی 'اے پیک' سربراہی اجلاس میں شرکت کر تے ہیں تو بائیڈن کے ساتھ ان کی علیحدہ سربراہی اجلاس کا موقع ہے۔ اس صورت میں دونوں صدور کے درمیان گزشتہ نومبر میں بالی میں گروپ آف ٹوئنٹی کے اجلاس کے بعد سے یہ ان کی دوسری رو برو ملاقات ہو گی ۔ تاہم، مبصرین کا کہنا ہے کہ اب جب کہ کانفرنس کے انعقاد میں چھ ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے ایسی ملاقات کی بنیاد ڈالنے کے لیے وقت ختم ہو رہا ہے۔
دونوں ملکوں میں کشیدگی کے مسائل بدستور برقرار ہیں
ولسن سینٹر کے کسنجر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر رابرٹ ڈیلی چین اور امریکہ کے تعلقات پر کہتے ہیں کہ "زیادہ مفاہمت والی زبان" سے بائیڈن انتظامیہ سرد جنگ کے تعلقات میں بہتری حاصل کرنے کی ایک مدبرانہ کوشش کر رہی ہے۔
تاہم، ان کے مطابق، چوں کہ نہ تو واشنگٹن اور نہ ہی بیجنگ نے اپنے اہداف یا اپنے یا اپنے حریف کے بارے میں اپنے جائزوں پر نظر ثانی کی ہے، لہٰذا گرمجوشی کے تعلقات امریکہ اور چین کے تعلقات کی بنیادی سمت کو تبدیل نہیں کریں گے۔
دونوں ملکوں کے درمیان بہت سی الجھنیں ہیں جو نازک میل ملاپ کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ ان میں ایک منصوبہ 'ایگزیکٹو آرڈر' ہے جس کے تحت امریکہ سے باہر سرمایہ کاری کو جانچنے کا طریقہ کار قائم کیا جائے گا جو چین کے سیمی کنڈکٹر اور دیگر اہم ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کرنے والی امریکی کمپنیوں کو محدود کر دے گا۔
ماہر ین کے مطابق واشنگٹن میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ تعلقات کو ہموار کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے لیکن دوسری طرف چین سمجھتا ہے کہ یہ کسی بھی وقت عمل میں آجائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یون کہتی ہیں کہ یوں یہ معاملہ چین کی طرف سے تعاون کی خواہش کو بڑھانے میں مدد گار نہیں ہے۔
بیجنگ چینی غبارے کی باقیات کے بارے میں جاری ایف بی آئی کی زیرقیادت تحقیقات کے نتائج سے بھی بے چین ہے۔ وائس آف امریکہ کے اس سوال کے جواب میں کہ ان تحقیقات کے نتائج کب جاری کیے جائیں گے؟ ایف بی آئی، محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاؤس نے ابھی تک کوئی جواب فراہم نہیں کیا۔
اس سلسلے میں ماہر وائلڈر کا کہنا ہے کہ اگر انتظامیہ ایگزیکٹو آرڈر کے ساتھ آگے نہیں بڑھتی تو کانگریس ممکنہ طور پر ایسا کرنے کے لیے قانون سازی پر زور دے گی۔
بیجنگ نے چین کو نشانہ بنانے والے معاشی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے ایکشن پلان پر بھی جواباً حملہ کیا ہے۔ خیال رہے کہ جی سیون گروپ نے اپنے حالیہ سربراہی اجلاس کے بعد اس منصوبے کو جاری کیا تھا۔
گروپ کے اس اعلان کے اگلے دن، بیجنگ نے امریکی میموری چپ بنانے والی کمپنی مائیکرون ٹیکنالوجی انکارپوریٹڈ کی مصنوعات پر کمپیوٹر سسٹمز میں پابندی لگا دی تھی۔ بیجنگ نے تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا تھا کہ امریکی مصنوعات سے حفاظتی خطرات لاحق ہیں۔
تعلقات کی سمت کے بارے میں کن باتوں پر نظر رکھی جائے
وائس آف امریکہ کی نمائندہ پیٹسی ودا کسوارا کے مطابق چین اور امریکہ کے درمیان مزید گرمجوشی کے تعلقات کا ایک اہم اشارہ یہ ہے کہ آیا بیجنگ اگلے ہفتے سنگاپور میں دفاع سے متعلق شنگری لا ڈائیلاگ کے موقع پر امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور ان کے چینی ہم منصب لی شانگفو کے درمیان ملاقات کے لیے واشنگٹن کی درخواست کو قبول کرے گا۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے کہاہے کہ واشنگٹن کو سب سے پہلے لی، جو اب چین کے وزیر دفاع ہیں، کے خلاف پابندیاں ہٹانی چاہئیں تاکہ بات چیت اور مواصلات کے لیے سازگار ماحول اور حالات پیدا ہوں۔
SEE ALSO: چینی ہیکرزاہم بنیادی انفراسٹرکچر پر حملے کر رہے ہیںلی کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے 2018 میں چین کی طرف سے روسی جنگی طیاروں اور آلات کی خریداری میں کردار ادا کرنے پر نافذ کی گئی پابندیوں کا سامنا ہے۔
بائیڈن نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ یہ معاملہ زیر بحث ہے۔ تاہم، محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ ان پابندیوں کو ہٹانے پر غور نہیں کر رہی۔
دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں پیش رفت کے حوالے سے دیگر اشاروں میں امریکی حکام کے بیجنگ کے اعلیٰ سطح کے دورے ہیں، جن میں موسمیات کے ایلچی جان کیری، وزیر خزانہ جینٹ ییلن اور وزیر تجارت ریمونڈو کے دورے شامل ہیں۔