|
اسلام آباد -- امریکی کانگریس کی طرف سے پاکستانی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے مطالبے نے پاکستان میں نئی سیاسی ہلچل مچا دی ہے۔ تحریکِ انصاف اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے تو وہیں حکومت اسے تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔
دفترِ خارجہ کی جانب سے بھی اس معاملے پر ردِعمل آیا ہے جس میں امریکی قرارداد کو سیاق و سباق کے منافی قرار دیا گیا ہے۔
ترجمان دفترِ خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کی دوسری بڑی پارلیمانی اور پانچویں بڑی جمہوریت ہے۔ ہم آئین، قانون کی حکمرانی اور اپنے قومی مفادات جیسی اقدار کے ساتھ مکمل وابستگی رکھتے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان یکساں احترام اور افہام و تفہیم کی بنیاد پر تعمیری گفت و شنید اور تعلقات آگے بڑھانے پر یقین رکھتا ہے۔ تاہم ایسی قراردادیں نہ ہی تعمیری ہیں اور نہ ہی معروضی۔
واضح رہے کہ امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان نے پاکستان میں رواں برس ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی 'مکمل اور آزادانہ' تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی ایوانِ نمائندگان نے منگل کو قرارداد نمبر 901 سات کے مقابلے میں 368 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے منظور کی جس میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قرارداد میں ہراسانی، دھمکیوں، تشدد، من مانی حراست، انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونی کیشن تک رسائی روکنے اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی بھی مذمت کی گئی ہے۔
پاکستانی وزیرِ دفاع کی تنقید
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے امریکی کانگریس کی قرارداد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایسے ملک کی طرف سے آئی ہے جو پچھلی پوری صدی میں دنیا بھر میں جمہوری حکومتوں کے تختے اُلٹتا آیا ہے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پاکستانی وزیرِ دفاع نے امریکہ میں 2016 اور 2020 کے صدارتی انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان انتخابات میں بھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی اور بیرونی مداخلت کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ امریکی حکام ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ امریکی محکمۂ خارجہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ دنیا بھر میں جمہوری نظام کے تسلسل کی حمایت کرتے ہیں۔
معاملے کی قومی اسمبلی میں گونج
امریکی کانگریس کی قرارداد کی پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی گونج سنائی دی۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کی رکن اسمبلی شاندانہ گلزار نے اس معاملے پر بات کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بجٹ کارروائی کی وجہ سے انہیں بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
شاندانہ گلزار نے کہا کہ امریکہ میں ایک قرارداد پر ووٹنگ ہوئی ہے کہ پاکستان کے انتخابات کی تحقیقات کرائی جائیں۔
'پوری دنیا تسلیم کر رہی ہے کہ آٹھ فروری کو دھاندلی ہوئی'
تحریکِ انصاف کے ترجمان رؤف حسن کہتے ہیں کہ امریکی کانگریس کی قرارداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کا دھاندلی سے متعلق مؤقف درست ہے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے رؤف حسن کا کہنا تھا کہ پوری دنیا اس بات کو تسلیم کر رہی ہے کہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات 'فراڈ' تھے اور اس وقت ملک میں عملی طور پر 'مارشل لا' لگا ہوا ہے۔
اُن کے بقول امریکہ نے جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے۔ امریکی کانگریس کی طرف سے منظور کی گئی قرارداد ایک بہت اہم معاملہ ہے۔
رؤف حسن کا کہنا تھا کہ حکومت سمجھ رہی تھی کہ امریکی حکومت ان کے ساتھ ہے۔ لیکن 368 ووٹوں کے ساتھ پاس ہونے والی اس قرارداد کے ساتھ سب کو پتہ چل گیا کہ ان کا ساتھ کوئی نہیں دے رہا۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور حکومت دھاندلی کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مؤقف ہے کہ اگر کسی کو دھاندلی سے متعلق شکایات ہیں تو اس کے لیے عدالتیں اور متعلقہ پلیٹ فارمز موجود ہیں۔
SEE ALSO: امریکی کانگریس کا پاکستانی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رُکن قومی حنیف عباسی نے الزام لگایا ہے کہ تحریکِ انصاف نے امریکہ میں اپنی لابنگ فرمز کے ذریعے یہ قرارداد منظور کرائی ہے۔
'یہ ایک نان بائنڈنگ قرارداد ہے'
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس قرارداد کا پاکستان پر کوئی اثر نہیں ہو گا کیوں کہ پاکستان اس پر عمل درآمد کا پابند نہیں ہے۔
تجزیہ کار اور سابق سفارت کار عاقل ندیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی طرف سے مختلف معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ نان بائندنگ قرارداد ہے اور اس کا پاکستان پر کچھ اثر نہیں ہے۔
یہ قرارداد اس موقع پر کیوں آئی ہے؟ عاقل ندیم نے کہا کہ امریکہ سمیت بیرون ملک پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے اور ان میں سے زیادہ تر تحریکِ انصاف کی حمایت کرتے ہیں۔
اُن کے بقول ان پاکستانی امریکی شہریوں نے آئندہ انتخابات میں امریکہ میں اپنا ووٹ بھی کاسٹ کرنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف نے امریکہ میں لابنگ فرمز بھی ہائر کی ہیں۔ بیشتر ارکان کانگریس کو پاکستان کے انتخابی عمل، فارم 45، فارم 47 یا دیگر امور کا صحیح طریقے سے ادراک بھی نہیں ہو گا۔
سینئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ امریکی کانگریس میں آنے والی قرارداد پاکستان کے لیے اچھا اشارہ نہیں ہے۔
اُن کے بقول اس قرارداد کے ذریعے موجودہ حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان کو اس بارے میں سخت مؤقف اپنانا چاہیے۔
'قرارداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کتنا فقدان ہے'
تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ امریکی کانگریس میں یہ قرارداد کوئی بھی ممبر پیش کر سکتا ہے اور اس پر بحث کے بعد اس کو منظور کرنے یا مسترد کرنے پر ووٹنگ کروائی جاسکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس قرارداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا کس قدر فقدان ہے۔
اُن کے بقول پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنی جماعت اور لیڈر کے لیے تو امریکہ میں لابنگ کرتی ہیں۔ لیکن پاکستان کے لیے کوئی لابنگ نہیں کی جاتی۔ پاکستان کا مقدمہ ایسے نہیں لڑا جاتا جس کی وجہ سے پاکستان کے بارے میں امریکہ میں منفی خیالات پائے جاتے ہیں۔
قمر چیمہ کے بقول پاکستان حکومت کا بھی مسئلہ ہے کہ یہاں کوئی جواب ہی نہیں دیا جاتا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے ساتھ ہمارے تعلقات ٹھیک ہیں تو کانگریس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
اُن کے بقول پاکستان اس بارے میں کوئی جواب دینے اور وضاحت کرنے کے لیے تیار نہیں، دھاندلی کے الزامات کی کوئی انکوائری کروائی نہیں گئی اور نہ ہی الیکشن کمیشن اس بارے میں کوئی بات کرتا ہے۔
ایسے میں کانگریس کی طرف سے ایسی قرارداد کا آنا پاکستان کے لیے مستقبل میں مشکل صورتِ حال پیدا کر سکتا ہے۔