سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کا بلدیاتی ادارے تحلیل کرنے کا اختیار ختم کر دیا ہے۔ عدالت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی شق 74 اور 75 کالعدم قرار دے دیں جن کے تحت سندھ حکومت کو مقامی حکومت تحلیل کرنے کا اختیار حاصل تھا۔سپریم کورٹ نے بلدیاتی اختیارات کیس میں ایم کیو ایم کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا ہے کہ ماسٹر پلان بنانا اور اس پر عمل درآمد بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات ہیں۔
سپریم کورٹ نے سندھ میں بلدیاتی اختیارات سے متعلق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی درخواست پر کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت با اختیار بلدیاتی ادارے قائم کرنے کی پابند ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے سندھ کے بلدیاتی اختیارات کیس سے متعلق 26 اکتوبر 2020 کو محفوظ کیا گیا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ بلدیاتی حکومت کے تحت آنے والا کوئی نیا منصوبہ صوبائی حکومت شروع نہیں کر سکتی۔ سندھ حکومت با اختیار بلدیاتی ادارے قائم کرنے کی پابند ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت بلدیاتی حکومت کے لیے مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات یقینی بنائے جائیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ سندھ حکومت مقامی حکومتوں کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ رکھنے کی پابند ہے، سندھ حکومت تمام قوانین کی آرٹیکل 140 اے سے ہم آہنگی یقینی بنائے اور صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کی مشاورت سے ہی منصوبے شروع کر سکتی ہے۔
عدالت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) ایکٹ، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے قوانین آئین کے مطابق ڈھالنے کا حکم دیا اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے)،حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قوانین بھی تبدیل کرنے کا حکم جاری کیا۔
عدالت نے لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)، سیہون ڈویلپمنٹ اتھارٹی ،لاڑکانہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قانون میں بھی ضروری تبدیلیوں کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ان شقوں میں تبدیلی کی جائے جہاں صوبائی اور مقامی حکومتوں کے اختیارات میں تضاد ہے۔
سپریم کورٹ نے بلدیاتی ادارے تحلیل کرنے کا صوبائی حکومت کا اختیار ختم کرتے ہوئے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی شق 74 اور 75 بھی کالعدم قرار دے دیں جس کے تحت سندھ حکومت کو مقامی حکومت تحلیل کرنے کا اختیار حاصل تھا۔
’بلدیاتی اداروں کو کوئی مضبوط نہیں کرنا چاہتا‘
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب نے عدالت کے فیصلے کو خوش آئندہ قرار دیا۔
بلدیاتی قوانین: سندھ حکومت اب کیا کرے گی؟ سندھ حکومت بلدیاتی قوانین میں تبدیلی پر رضامند، اگلا مرحلہ کس طرح طے ہو گا؟اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئےبلال محبوب کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے مضبوط بلدیاتی ادارے وجود میں آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے کوئی بھی صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کو مضبوط نہیں بنانا چاہتی۔ یہ فیصلہ صوبائی حکومت کو اپنی قانون سازی کے ذریعے کرنا چاہیے تھا البتہ اب عدالت کا فیصلہ آ گیا ہے لہٰذا اس کے مطابق قانون سازی کی جائے اور ان مقامی حکومتوں کو مضبوط بنایا جائے۔
سیاسی جماعتوں کا ردِعمل
سندھ کے وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ نے اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے آرٹیکل 140-اے کی پاسداری کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرے گی البتہ اگر کوئی قابلِ اعتراض بات ہوئی تو اپیل کا حق موجود ہے۔
اس فیصلے پر اس کیس کی مدعی جماعت ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اگر عدالتیں آزاد ہوں تو ملک آزاد ہوتے ہیں۔
ایم کیو ایم کی ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں آرٹیکل 140-اے پر عمل درآمد کے لیے تھی۔ سپریم کورٹ کا اسی پر فیصلہ آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مکمل فیصلے میں پاکستان کی عوام کو بااختیار کیا گیا ہے۔ اب صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کرائے۔ سندھ حکومت عدالتوں کے فیصلوں میں رکاوٹیں نہ کھڑی کریں۔
سندھ اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف اور پی ٹی آئی کے رہنما حلیم عادل شیخ نے ایک وڈیو بیان میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے حوالے سے تحریک انصاف کی پٹیشن بھی موجود ہے۔
انہوں نے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امید ہے سندھ حکومت کو اب سمجھ آ گئی ہو گی کہ سندھ کی عوام اور سیاسی جماعتیں کیوں سراپا احتجاج تھیں۔
حلیم عادل شیخ نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی شق نمبر 74 اور 75 کی پہلے دن سے مخالفت کی جا رہی ہے۔ بلدیاتی ایکٹ 2013 آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 اے سے متصادم ہے۔ امید ہے اس فیصلے سے سندھ حکومت کی، ان کے مطابق ، اب اجاراداری ختم ہو گی اور بااختیار بلدیاتی ادارے قائم ہوں گے۔