پاکستان میں سیاسی جماعتیں یا فریقین اعلیٰ عدلیہ اور اس کے فیصلوں پر تنقید کرتی رہتی ہیں لیکن بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ عدالتوں پر تنقید سےایسا تاثر ابھرتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور رہنما عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اعلیٰ عدلیہ پر تنقید کی تھی جسے مبصرین سیاسی دباؤ کا نام دیتے تھے۔ لیکن حالیہ دِنوں میں حکمران اتحاد اور خاص طور پر مسلم لیگ (ن) بھی اِسی روش پر چلتی نظر آ رہی ہے۔
حکمراں اتحاد نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے انتخاب سے متعلق سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت مقدمے میں کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔
حکمراں اتحاد کا مطالبہ تھا کہ اس مقدمے کی سماعت فل کورٹ کو کرنا چاہیے تاہم سپریم کورٹ نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔
اِس سلسلے میں وائس آف امریکہ نے اعلیٰ عدلیہ کے سابق ججز سے رائے لی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کی سابق جج جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال کہتی ہیں کہ عدالتوں کو سیاسی مقدمات نہیں سننے چاہئیں۔ ان کے مطابق پارلیمان اپنا کام کرے اور عدلیہ اپنا کام کرے۔ ایسے معاملات کے لیے الیکشن ٹریبونلز موجود ہیں۔
SEE ALSO: ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس: حکومتی اتحاد نے فل کورٹ نہ بنانے کے فیصلے پر مقدمے کا بائیکاٹ کر دیاانہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ماضی میں کسی ایک سیاسی جماعت نے عدلیہ پر تنقید کی ہے یا اُس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرا فریق بھی ایسا کرے۔ کسی کو بھی عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کا حق نہیں۔
جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال کہتی ہیں کہ عدالت کو بغیر کسی دباؤ اور آزادی سے کام کرنے دینا چاہیے۔ آئین کے مطابق ہر ادارے کے الگ اختیارات ہیں۔ مقننہ الگ، عدلیہ الگ اور انتظامیہ الگ اختیارات رکھتی ہے۔ سب کو اپنے معاملات خود دیکھنے چاہئیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ شاہد حمید ڈار سمجھتے ہیں کہ عدالتوں کو خود کو تمام سیاسی معاملات اور سیاسی کیسز سے دور رکھنا چاہیے۔ کسی صورت بھی اِن میں نہیں الجھنا چاہیے۔ بطور ریاست ہم اِس مرحلے سے آگے نکل آئے ہیں جن میں ماضی میں بہت سے فیصلے کیے گئے۔ بہت سے معاملات پر عدالتوں نےاپنی تشریحات کیں۔
'سیاسی جماعتوں کے بیانیے میں تبدیلی آتی رہی ہے'
سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان میں اداروں کی عزت وتکریم کی بات تو سب کرتے ہیں البتہ سب ہی اِن اداروں کو اپنے مفاد کے حساب سے بھی دیکھتے ہیں جب کہ وقت کے ساتھ سیاسی جماعتیں عدلیہ سے متعلق اپنےبیانیے میں تبدیلی لاتی رہی ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی صورتِ حال میں مسلم لیگ (ن) ایک سیاسی قوت ہے۔اُس نے ایک نیا بیانیہ اپنایا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت جس طرح بنائی گئی تھی، تو وہ اداروں کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کی بات کیا کرتے تھے۔ البتہ جب اُن کا اقتدار ختم ہوا تو اُس ایک صفحے کا اُنہوں نے کیا کیا؟ بعدازاں عمران خان پاکستانی اداروں پر تنقید کرتے نظر آئے اور اُنہوں نے اداروں کے لوگوں کو میر جعفر اور میر صادق بھی کہا۔
سلمان غنی کے خیال میں مسلم لیگ (ن) بھی ایسا ہی کر رہی ہے، مختلف ایشوز پر مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ بدلتا رہتا ہے جس کی یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اندر نہ جمہوریت مضبوط ہوئی ہے، نہ پاکستان کے ریاستی ادارے مضبوط ہو پائے ہیں۔
'ججز کا بائیکاٹ توہین عدالت ہے'
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے انتخاب سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ اس بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔ حکومتی اتحاد نے اس بینچ پر شدید تحفظات کاا ظہار کرتے ہوئے فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا کی تھی تاہم تین رکنی بینچ کی جانب سے اپیل مسترد کیے جانے کے بعد اب یہی بینچ سماعت آگے بڑھائے گا۔
جسٹس ریٹائرڈ شاہد حمید ڈار سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے موجودہ بینچ پر سب سے بڑا اعتراض یہی ہے کہ دونوں فریقین جن میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی شامل ہیں، ان کے معاملات کے حوالے سے جو بھی بینچ بنتا ہے ان میں یہی جج بار بار شامل ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں جاری کیس سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے عدالت میں دلائل سے ایسا تاثر ابھرتا ہے کہ سیاسی درجۂ حرارت خاصا بڑھ گیا ہے، جس کو فوری طور پر کم کیا جانا چاہیے جو کہ فل کورٹ بینچ کی تشکیل سے حل ہو سکتا ہے کیوں کہ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔
SEE ALSO: آنکھوں دیکھا حال: سپریم کورٹ میں اتحادیوں کے وکیل نے ججوں سے کیا کہا؟جسٹس ریٹائرڈ شاہد حمید ڈار کے بقول سائل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ فل کورٹ کے لیے درخواست کر سکتا ہے اور چیف جسٹس کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ فل کورٹ بنا سکتے ہیں۔
اس پر جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال کہتی ہیں کہ چیف جسٹس کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ بینچ کون سا بنائے اور کتنے ججز پر مشتمل بینچ تشکیل ہو۔لیکن اگر سائل یہ کہے کہ فلاں جج اُس کے کیس کی سماعت کرے، اگر اُس کی مرضی کے خلاف جج کیس سنتا ہے تو وہ عدالت میں پیش نہیں ہو گا۔ یہ صاف صاف توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
عدالتوں پر تنقید کیوں؟
جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال سمجھتی ہیں کہ یہ مناسب رویہ نہیں ہے کہ عدلیہ مخالف بیانات دے کر یا سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم چلا کر اپنی حمایت میں فیصلہ لینے کی کوشش کی جائے۔ ان کے بقول کسی بھی مقدمے میں دو سائل ہوتے ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ ایک فریق کے حق میں اور دوسرے کے خلاف جاتا ہے۔اس لیے کسی بھی فریق کو ایسا بیان نہیں دینا چاہیے جس سے یہ تاثر اُبھرے کہ وہ عدالت کا فیصلہ تسلیم نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ سائل کو چاہیے کہ مؤدب طریقے سے عدالت کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایک استدعا کر سکتا ہے کہ وہ نظر ثانی کرے لیکن یوں بیان بیازی کرنا مناسب نہیں۔
پاکستان کی حالیہ سیاسی صورتِ حال اور ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ پر اپنی رائے دیتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ گزشتہ چند ہفتوں میں پاکستان میں اعلٰی عدالتوں نے صرف سیاسی مقدمات پر ہی سماعت کی ہے۔ ان کے بقول جو فیصلے ایوان کے اندر ہونے چاہئیں وہ ایوان سے باہر ہو رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مسائل پر عدالتوں میں سماعت ہو رہی ہے۔ سولہ اپریل اور بائیس جولائی کے عدالتی فیصلوں کو ماننے سے انکار کر دیا گیا جس سے نظام چلتا دکھائی نہیں دے رہا۔
سلمان غنی کے بقول سیاست دانوں کے پاس وقت کم ہے اور غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اپنا نظام مضبوط بنانا ہوگا ورنہ وہ ملک کا نظام نہیں چلا سکیں گے۔