|
کوئٹہ _ "یہ سن کر بہت حیرت ہوئی کہ میرا نام فورتھ شیڈول میں شامل ہے اور اس سے بڑھ کر افسوس ہوا۔ میں ایک استاد، لکھاری اور پرامن شہری ہوں۔ میں خود کو قانون اور آئین کا پابند سمجھتا ہوں۔"
یہ کہنا ہے بلوچستان کے ایک استاد اور مصنف عابد میر کا، جن کا نام محکمۂ داخلہ بلوچستان نے حال ہی میں فورتھ شیڈول میں شامل کیا ہے۔ اس فہرست میں کالعدم تنظیموں کی سہولت کاری کے الزام میں تقریباً 300 افراد کو شامل کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عابد میر نے بتایا کہ وہ کوئٹہ کے سرکاری کالج کے استاد ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ ان دنوں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے اسلام آباد میں موجود ہیں لیکن ان کا ٹرانفسر ڈیرہ بگٹی کردیا گیا ہے۔
ان کے بقول، "میرا زیادہ تر کام ادبی نوعیت کا ہے۔ کبھی کسی تنظیم سے کوئی باضابطہ تعلق نہیں رہا۔ صوبائی اور ملکی سیاست پر لکھتا بولتا رہا ہوں لیکن کبھی پُرتشدد سیاست کے حق میں نہیں لکھا۔"
عابد میر کے علاوہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دیگر اضلاع کے اساتذہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کے انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ ان کے نام بھی فورتھ شیڈول میں شامل ہیں۔
بلوچستان حکومت کی جانب سے فورتھ شیڈول میں بلوچستان کی طلبہ تنظیموں کے کارکنوں بالخصوص ان کی لیڈرشپ کے نام بھی شامل کیے ہیں۔
فورتھ شیڈول پاکستان کے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کا ایک حصہ ہے۔ یہ ایک ایسا قانون ہے جس کے ذریعے حکومت ان افراد یا تنظیموں کی نگرانی کر سکتی ہے جن کے بارے میں شبہ ہو کہ وہ کسی دہشت گرد تنظیم کے لیے کام کرتے ہیں یا ان سے کسی قسم کا تعلق رکھتے ہیں یا ان کے نظریات و سرگرمیاں ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے چیئرمین بالاچ قادر کے مطابق ان کا نام بھی فورتھ شیڈول میں شامل ہے جب کہ اُن کی تنظیم کے سیکریٹری جنرل اور انفارمیشن سیکریٹری کا نام بھی اس فہرست میں ہے۔
بالاچ کے بقول، "ہمیں گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے ہیڈ کوارٹر سے فون آ رہے ہیں کہ آپ دفتر آکر رپورٹ کریں اور اپنا قومی شناختی کارڈ ساتھ لائیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ہمارے نام فورتھ شیڈول میں شامل ہیں۔"
بالاچ کے مطابق انہیں سریاب تھانے کے ایس ایچ او نے فون کر کے تھانہ رپورٹ کرنے کا کہا جب کہ تھانے نے انہیں فورتھ شیڈول کا لیٹر اور ایک فارم بھی دیا جس میں کوائف، بینک اکاونٹس، خاندان کے افراد کے ناموں کی تفصیل درج کرنے کو کہا گیا ہے۔
بالاچ نے کہا کہ فورتھ شیڈول میں نام ڈال کر ہمیں ایک ایسی کالعدم تنظیم کے ساتھ منسلک کر دیا ہے جس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے کہا "ہم اپنے تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست ضرور کرتے ہیں اور ہماری سیاست کا مرکز طلبہ کمیونٹی ہے۔ اس کے علاوہ ہم کسی اور سرگرمی کا حصہ نہیں ہیں۔"
فورتھ شیڈول میں شامل افراد پر کیا الزامات ہیں؟
ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے رواں برس 23 جولائی کو فورتھ شیڈول کی فہرست جاری کی تھی لیکن وہ گزشتہ دنوں منظر عام پر آئی ہے۔
ڈی سی کوئٹہ کے دستخط سے جاری فہرست میں شامل 137 افراد کا تعلق کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے جوڑا گیا ہے۔
ڈی سی کوئٹہ کے اعلامیے کے مطابق فورتھ شیڈول میں شامل افراد پر شبہ ہے کہ وہ کالعدم بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کے سہولت کار ہیں جو فنڈ ریزنگ، کارنر میٹنگز، احتجاجی مظاہروں کے منتظمین ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اساتذہ، طالب عملوں اور سیاسی کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے کونسل رکن حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لگ بھگ 300 سے زائد افراد کو طلبی کے نوٹسز جاری کیے گئے ہیں جن میں اساتذہ، طالب علم، سیاسی و سماجی کارکن اور صحافی بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: بلوچ نوجوان سرداروں کی بات سننے کو تیار نہیں، ان کی تحریک میں شامل ہو سکتا ہوں: اختر مینگلانہوں نے کہا کہ فورتھ شیڈول کا قانون مجرموں کے لیے بنایا گیا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہر پر امن شہری کا نام اس فہرست میں شامل کیا جائے۔
حبیب طاہر کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے پرامن شہریوں کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کرنا غیر قانونی و غیر آئینی اقدام ہے۔
کوئٹہ کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ کہتے ہیں فورتھ شیڈول میں ایسے لوگوں کے نام شامل کیے جاتے ہیں جن پر شبہ ہو کہ وہ ریاست کے خلاف بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی سرگرمی میں ملوث ہیں۔
ان کے بقول، گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے جلسے کے اعلان کے بعد کشیدگی کے باعث مکران ڈویژن دس روز تک بند رہا تھا۔ اس وجہ سے شاید حکومت نے فورتھ شیڈول کا اقدام اٹھایا اور لگتا ہے کہ ایسا اس وجہ سے کیا گیا تاکہ لوگوں کو بی وائی سی کے جلسوں اور دھرنوں میں شرکت سے روکا جائے۔
رشید بلوچ کے مطابق اب تک جتنے لوگوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے ہیں ان میں زیادہ تر سیاسی کارکن ہیں اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جن کا بی وائی سی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
SEE ALSO: آپریشن عزمِ استحکام کے لیے 20 ارب روپے جاری؛ کیا اس اقدام کا تعلق بلوچستان کے حالات سے ہے؟بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سماجی رابطوں کی سائٹ 'ایکس' پر جاری ایک بیان میں الزام عائد کیا کہ "بلوچستان حکومت اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہزاروں لوگوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈال کر بڑے پیمانے پر اور منظم زیادتیاں کر رہی ہے جو کہ انسدادِ دہشت گردی کی ایک سخت واچ لسٹ ہے۔"
بیان کے مطابق فہرست میں میرا بھائی ناصر بلوچ بھی شامل ہے جو اس سے قبل جبری گمشدگی کا شکار ہو چکا ہے اور اس کا کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ لوگوں کو کنٹرول کرنے، حکم دینے، جبر کرنے اور لوگوں کے خیالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم بلوچ ایسی کسی بھی کوشش کی مزاحمت کریں گے۔
حکومت کا مؤقف
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ فورتھ شیڈول کے معاملے پر کچھ سیاسی رہنماؤں کے بتائے گئے اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فورتھ شیڈول میں شامل نئے یا پرانے نام ملا کر بھی تعداد اتنی نہیں جتنی ظاہر کر کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
ترجمان نے بتایا کہ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کے پاس قانونی طور پر یہ اختیار موجود ہے کہ کسی بھی شخص کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹ پر ان کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب طلبہ تنظیموں نے فورتھ شیڈول فہرست کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بی ایس او کے چیئرمن بالاچ قادر نے کہا کہ انہوں نے اپنی قانونی ٹیم اور سینئر وکلا سے رابطہ کیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ جلد فورتھ شیڈول معاملے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
بلوچستان اسمبلی میں فورتھ شیڈول کی گونج
بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل پارٹی کے قائد اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ حکومت نے فورتھ شیڈول میں بی ایس او پجار کے چیئرمین کا نام بھی ڈال دیا ہے جو یونیورسٹی میں بیٹھ کر پاکستان کے حق میں بات کرتا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے بلوچستان کے تین ہزار پروفیسرز، سرکاری ملازمین، طلبہ رہنما اور صحافیوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا ہے اور ان افراد پر جو الزامات عائد کیے ہیں ان سے لگتا ہے کہ حکومت انہیں آزادی کی تحریک کی طرف دھکیل رہی ہے۔
انہوں نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ محب وطن ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر فی الفور نظر ثانی کرے۔
SEE ALSO: بلوچ علیحدگی پسند خواتین کو خود کش حملوں کے لیے کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ماہرینِ قانون کے مطابق فورتھ شیڈول میں شامل افراد پر بہت سی پابندیاں لگائی جاتی ہیں جن میں ان کی مانیٹرنگ، علاقہ چھوڑنے پر پولیس و انتظامیہ سے پیشگی اجازت، بینک اکاؤنٹس کو مخصوص عرصے کے لیے منجمد کرنا اور عوامی جلسوں یا کسی سیاسی سماجی تحریکوں میں حصہ لینے پر پابندیاں شامل ہیں۔
ماضی میں بھی فورتھ شیڈول دہشت گردی اور شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے مختلف ادوار میں ریاستی حکمتِ عملی کا حصہ رہا ہے۔
بلوچستان کے ماہر قانون اور سپریم کور بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کہتے ہیں فورتھ شیڈول کا قانون مشکوک افراد کی نگرانی کی اجازت دیتا ہے لیکن جب مشکوک شخص کا معاملہ عدالت میں آتا ہے تو حکومت کو ثبوت پیش کرنا ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فورتھ شیڈول سے آئین کے آرٹیکل فور، آرٹیکل نائن، آرٹیکل 10 سمیت دیگر حقوق سلب ہوتے ہیں اور بظاہر حکومت ایک شہری کو اپاہج بنا دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں بی وائی سی کی رہنما سیمی دین بلوچ کو اومان جانے سے روکا گیا اور انہیں ایئرپورٹ پر بتایا کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سیمی دین بلوچ کا نام بھی فورتھ شیڈول میں شامل ہو۔