حکومتِ سندھ نے جماعتِ اسلامی کی مقامی قیادت سے مذاکرات کے بعد انہیں نئے بلدیاتی قانون میں ترمیم کی یقین دہانی کرا دی ہے جس کے بعد سندھ اسمبلی کے باہر 28 روز سے جاری دھرنا ختم کر دیا گیا ہے۔
حکومتِ سندھ کے مطابق صوبے میں حال ہی میں نافذ ہونے والے 'سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2021' کو واپس لیا جائے گا اور 2013 کے بلدیاتی قانون میں ضروری ترامیم کے بعد اسے نافذ کیا جائے گا۔
جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب وزیرِ بلدیات ناصر حسین شاہ نے دھرنے کے شرکا کے سامنے صوبائی حکومت اور جماعت اسلامی کی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان ہونے والا تحریری معاہدہ بھی پڑھ کر سنایا۔
معاہدے کے مطابق تعلیم اور صحت کے تمام شعبے بشمول اسپتال، ڈسپینسریاں اور اسکولز بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سپرد ہوں گی جب کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز بحال کی جائیں گی۔
فریقین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ بلدیاتی قوانین میں تبدیلیاں کرکے کراچی کے مئیر کو کراچی واٹر بورڈ اینڈ سیوریج بورڈ کا چیئرمین بنایا جائے گا ۔ اسی طرح آکٹرائے اور موٹر وہیکل ٹیکس میں سے بھی بلدیاتی اداروں کو حصہ ملے گا۔
صوبائی حکومت سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو پہلے ہی مقامی حکومتوں کو منتقل کرنے پر تیار تھی۔ اور یہ بھی معاہدے میں شامل ہے۔
SEE ALSO: کیا سندھ کے نئے بلدیاتی نظام سے شہریوں کے مسائل حل ہوسکیں گے؟صوبائی وزیر بلدیات نے یہ بھی بتایا کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے 30 روز کے اندر صوبائی فنانس کمیشن کی تشکیل اور ایوارڈ کا اعلان کیا جائے گا جس میں وسائل کی تقسیم آبادی کے مطابق کی جائے گی۔ اور یوں یونین کمیٹیوں/کونسلز کو آبادی کی بنیاد پر ماہانہ اور سالانہ فنڈنگ کی جائے گی۔
ناصر حسین شاہ کے مطابق صوبے میں بلدیاتی اداروں سے متعلق نیا قانون بننے کے 90 روز میں نئے بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔
سندھ حکومت سے مذاکرات کی کامیابی کے بعد جماعت اسلامی نے صوبائی اسمبلی کے باہرجاری دھرنا ختم کردیااور جمعے کے روز شہر میں پانچ مقامات پر علامتی دھرنا دینے کی کال بھی واپس لے لی۔
فنانس کمیشن کی تشکیل کی شرط مذاکرات میں شامل
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ وہ تمام ادارے جو بلدیاتی حکومتوں کے پاس ہونے چاہیئں، 2021 کے بلدیاتی قانون میں ایسے تمام ادارے صوبائی حکومت نے اپنے پاس رکھ لیےتھے۔ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ شہر میں پانی اور سیوریج کا نظام مئیر کے ماتحت نہ ہو۔ اسی طرح ماسٹر پلان، ٹرانسپورٹ، ڈویلپمنٹ اتھارٹیز صوبائی حکومت کے پاس ہیں، ایسے میں مئیر کیا کرے گا؟
انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ مسئلہ صوبائی فنانس کمیشن کی تشکیل نہ ہونے سے پیدا ہوتے ہیں۔ وفاق سے صوبوں کو فنڈز منتقل ہونے کے باوجود پی ایف سی کی تشکیل نہ ہونے سے اضلاع کو فنڈز نہیں ملتے، اگر یہ کرلیا جائے تو آئین کی شرط بھی پوری ہوجائے گی اور بلدیاتی ادارے خود بخود مستحکم ہوجائیں گے۔ اسی لیے صوبائی حکومت سے مذاکرات کے دوران کمیشن کی تشکیل کی شرط کو شامل کیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ صوبائی حکومت نے گزشتہ برس 2013 کے بلدیاتی قانون میں ترامیم کے بعد اسے نافذ کیا تھا جسے اپوزیشن جماعتیں کالا قانون قرار دیتی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ 'لوکل گورنمٹ ایکٹ' بلدیاتی اداروں کے وسائل پر قبضہ مزید مستحکم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ لیکن صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ نیا بلدیاتی قانون پچھلے قوانین کے مقابلے میں کافی بہتر ہے۔
نئے بلدیاتی قانون کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) نے بھی بدھ کو وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاج کیا تھا۔
'بلدیاتی حکومتیں برائے نام تشکیل دینا مسئلے کا حل نہیں'
ایم کیو ایم رہنما سینیٹر فیصل سبزواری کہتے ہیں پیپلز پارٹی کے 13 سالہ دور اقتدار میں صوبائی حکومت نے ایک بھی فنانس کمیشن تشکیل نہیں دیا۔ صوبے کا ترقیاتی بجٹ 329 ارب روپے ہے جس میں سے بمشکل 20 ارب کراچی کے لیے رکھے گئے ہیں۔
کئی تجزیہ کار یہ سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بہت سے مالی اور انتظامی اختیارات ملنے کے باوجود بھی اضلاع کو وسائل کی تقسیم کسی پیمانے کے بغیر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے کئی قسم کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
فیصل سبزواری کے مطابق ان کی جماعت کا مؤقف ہے کہ بلدیاتی حکومتیں برائے نام تشکیل دینا مسئلے کا حل نہیں۔ بلکہ انہیں آئینِ پاکستان کے عین مطابق معاشی، انتظامی اور سیاسی اختیارات دیے جانا ضروری ہیں تاکہ وہ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ بھر کے تمام شہروں، دیہاتوں اور قصبوں کی بہتری میں فعال کردار ادا کرسکیں۔
'صوبوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ بلدیاتی اداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھا جائے'
سندھ ہائی کورٹ کے وکیل مرید علی شاہ ایڈووکیٹ مقامی حکومتوں کے اختیارات سے متعلق کئی آئینی درخواستیں دائر کرچکے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ بلدیاتی قوانین میں بہتری کی بہت سی گنجائش موجود ہے۔
مرید علی شاہ کا کہنا ہے کہ صوبوں میں برسر اقتدار جماعتوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ بلدیاتی نظام کو کنٹرول میں رکھا جائے اور اختیارات کو نچلی سطح پر حقیقی معنوں میں منتقل نہ کیا جائے۔ ان کے بقول اگر اختیارات نچلی سطح پر منتقل کردیے گئے تو پیسہ بھی انہی حکومتوں کے پاس جائے گا۔ اور ایسے میں اراکین اسمبلی سیاسی و انتظامی طاقت سے محروم ہوجائیں گے۔
مرید علی شاہ کے مطابق منتخب اراکین سمجھتے ہیں کہ اختیارات میئر اور کونسلر کی سطح پر منتقل ہونے کی صورت میں اُن کے پاس ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ علاقائی مسائل جن میں پانی کی فراہمی، سڑکوں کی مرمت، گلی محلوں کی بہتری، پارکس کا قیام اور ان کی بہتری، صحت کے مراکز میں سہولیات، تعلیم اور اس طرح کے دیگر مسائل کے حل کے لیے ووٹرز کی نظریں منتخب اراکینِ اسمبلی کی جانب ہوتی ہیں۔ اس لیے ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ رکھنے کے لیے اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں ہوتے۔