سندھ ہائی کورٹ نے ویڈیو شیئرنگ ایپ ‘ٹک ٹاک’ پابندی کا حکم نامہ ہفتے کو واپس لے لیا ہے۔ البتہ عدالت نے ہدایت کی ہے کہ ٹک ٹاک صارفین کے قابلِ اعتراض مواد سے متعلق کی گئی شکایات کا ازالہ کرے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے رواں ہفتے جمعرات کو ایک شہری کی طرف سے دائر کردہ درخواست پر سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق چین کی ایپلی کیشن ٹک ٹاک کو تیسری بار بلاک کر دیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں بیرسٹر اسد اشفاق نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ٹک ٹاک ایپلی کیشن پر ایسی ویڈیوز چلائی جا رہی ہیں جن سے نوجوان نسل پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
درخواست گزار کے مطابق فحاشی پر مبنی ایسے مواد کو جاری کیا جاتا ہے جو ملکی ثقافت اور مذہبی اصولوں کے خلاف ہے۔ اسی طرح ٹک ٹاک پر حال ہی میں ہم جنس پرستی کو بھی فخریہ طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ اس بارے میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن حکام سے بھی شکایت کی گئی لیکن کوئی مداوا نہیں ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
عدالت نے درخواست پر ٹک ٹاک کا پاکستان بھر میں آپریشن فوری بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل پاکستان اور پی ٹی اے کو نوٹسز جاری کر دیے تھے۔
ٹک ٹاک پر پابندی کو صارفین کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جو اس ایپ کو مختلف اشیا کی مارکیٹنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تاہم ٹک ٹاک کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ ایپ فحاشی پھیلاتی ہے۔
اس سے قبل پی ٹی اے کے وکیل نے پشاور ہائی کورٹ میں دورانِ سماعت عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ ٹک ٹاک پر شائع کی جانے والی غیر اخلاقی اور قابلِ اعتراض مواد رکھنے والی 80 لاکھ سے زائد ویڈیوز ہٹانے کے علاوہ چار لاکھ سے زائد اکاؤنٹس بھی بلاک کیے گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پی ٹی اے کے وکیل جہانزیب محسود کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک انتظامیہ نے ویب سائٹ کی نگرانی کے لیے ایک فوکل پرسن بھی تعینات کیا ہے۔
ٹک ٹاک انتظامیہ کی جانب سے یقین دہانی اور پاکستان میں مواد سے متعلق فوکل پرسن تعینات کرنے پر عدالت نے 21 اپریل کو ٹک ٹاک پر عائد پابندی اس شرط پر ہٹا دی تھی کہ ویڈیو شیئرنگ ایپ پر غیر اخلاقی ویڈیوز اپ لوڈ نہیں کی جائیں گی۔
اس خبر میں معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے شامل کی گئی ہیں۔