سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان میں ایک بار پھر ویڈیو شئیرنگ ایپ ٹک ٹاک کو معطل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ یہ تیسری بار ہے جب ٹک ٹاک کا پاکستان میں آپریشن معطل کیا گیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں بیرسٹر اسد اشفاق نے موقف اختیار کیا کہ ٹک ٹاک ایپلی کیشن پر ایسی ویڈیوز چلائی جارہی ہیں جن سے نوجوان نسل پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
درخواست گزار کے مطابق فحاشی پر مبنی ایسے مواد کو جاری کیا جاتا ہے جو ملکی ثقافت اور مذہبی اصولوں کے خلاف ہیں۔ اسی طرح ٹک ٹاک پر حال ہی میں ہم جنس پرستی کو بھی فخریہ طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ اس بارے میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن حکام سے بھی شکایت کی گئی لیکن کوئی مداوا نہیں ہوا۔
درخواست گزار کے وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ انہی وجوہات کی بنا پر اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کر کے ٹک ٹاک کا آپریشن پاکستان میں بند کرنے کی استدعا کی تھی۔ پشاور ہائی کورٹ میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) حکام نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ حکومت نے ٹک ٹاک انتظامیہ سے اپنے مواد کو ریگولیٹ کرنے اور انہیں مقامی قوانین کے مطابق ڈھالنے اور فحاشی پھیلانے سے روکنے کو کہا ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ جواب جمع کرانے پر پشاور ہائی کورٹ نے ٹک ٹاک پر پابندی ختم کردی تھی لیکن اس کے باوجود بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اور اس متعلق یہ درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی۔
عدالت نے درخواست پر ٹک ٹاک کا پاکستان بھر میں آپریشن فوری بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل پاکستان اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کو نوٹسز جاری کردئیے ہیں۔ اس کیس کی مزید سماعت 8 جولائی کو مقرر کی گئی ہے۔
اس سے قبل پی ٹی اے کے وکیل نے پشاور ہائی کورٹ میں دوران سماعت عدالت کا آگاہ کیا تھا کہ ٹک ٹاک پر شائع کی جانے والی غیر اخلاقی اور قابلِ اعتراض مواد رکھنے والی 80 لاکھ سے زائد ویڈیوز ہٹانے کے علاوہ چار لاکھ سے زائد اکاؤنٹس بھی بلاک کئے گئے ہیں۔ پی ٹی اے کے وکیل جہانزیب محسود کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک انتظامیہ نے ویب سائٹ کی نگرانی کے لیے ایک فوکل پرسن بھی تعنیات کیا ہے۔
ٹک ٹاک انتظامیہ کی جانب سے یقین دہانی اور پاکستان میں مواد سے متعلق فوکل پرسن تعینات کرنے پر عدالت نے 21 اپریل کو ٹک ٹاک پر عائد پابندی اس شرط پر ہٹا دی کہ شیئرنگ ایپ ہر غیر اخلاقی ویڈیوز اپ لوڈ نہیں کی جائیں گی۔