آبادی کے اعتبار سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے ریاستی انتخابات میں مہنگائی، بے روزگاری ، کرونا وبا اور کسانوں سے متعلق حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسی پر اسے تنقید کا سامنا ہے۔ البتہ بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ گائے کے تحفظ سے متعلق اس کے اقدامات بھی انتخابی نتائج پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
ریاستی انتخابات کے تیسرے مرحلے کے لیے ووٹںگ کا آغاز 20 فروری کو ہو گا۔ایک زرعی ریاست ہونے کی وجہ سے یوپی میں کسانوں کے ووٹ انتخابات میں فیصلہ کن اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی حکومت نے یوپی میں اپنی عوامی حمایت برقرار رکھنے کے لیے کسانوں کے خاندان میں ہر فرد کو نوکری اور مفت بجلی دینے کے اعلانات کیے ہیں۔
لیکن کسانوں کی آوارہ مویشیوں سے متعلق شکایات کو اس بار انتخابات پر اثرا انداز ہونے والا اہم ایشو قرار دیا جا رہا ہے۔ کسانوں کے لیے آوارہ مویشیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کی بنیادی وجہ بی جے پی کے گائے کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے مبصرین کا کہنا ہے کہ یوپی انتخابات میں آوارہ مویشیویوں کا ایشو بی جے پی کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
یوپی میں ہونے والے انتخابات سے قبل سامنے آنے والے ایک جائزے کے مطابق 39 فی صد رائے دہندگان کے لیے آوارہ جانوروں کا ایشو اور 19 فی صد کے مطابق کسانوں کا مسئلہ اہم انتخابی ایجنڈا ہے۔حکومت کے حامی تصور ہونے والے نشریاتی ادارے 'زی نیوز کے ایک سروے میں 73 فی صد ووٹرز بے روزگاری 65 فی صد نے مہنگائی اور 54 فی صد ترقی کو انتخابی ایشو سمجھتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
آوارہ مویشیوں کا مسئلہ کیا ہے؟
بھارت دنیا میں سب سے زیادہ دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر برس بھارت میں مجموعی طور پر 30 لاکھ جانور دودھ دینے کے قابل نہیں رہتے۔
بھارت کے دیہی علاقوں میں مویشیوں کو اس وقت ’کارآمد‘ تصور کیا جاتا ہے جب تک وہ دودھ دیتے ہیں۔ دودھ دینےوالی گائے عام طور پر تین سے 10 برس کی عمر تک ہی دودھ دینے کے قابل ہوتی ہے جب کہ اس کی اوسط عمر 15 سے 18 برس ہوتی ہے۔
نر مویشیوں کے کارآمد ہونے کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ زراعت میں ٹریکٹر اور مشینری کا استعمال عام ہونے ہونے سے قبل ہل چلانے اور بار برداری سمیت دیگر کاموں کے کے لیے بیل یا بھینسے وغیرہ کا استعمال ہوتا تھا۔ لیکن اب ان کا یہ مصرف بھی نہیں رہا ہے۔ اس لیے ماضی میں اکثر کسان دودھ نہ دینے والے اورنر مویشیوں کو مسلمان تاجروں کو فروخت کر دیا کرتے تھے اور ان میں سے لاکھوں مویشی گوشت اور چمڑے کے لیے بنگلہ دیش اسمگل کر دیے جاتے تھے۔
لیکن بی جے پی حکومت کے اقدامات کے بعد یہ سلسلہ رک گیا اور مرکزی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت اتر پردیش میں آوارہ مویشیوں کی تعداد جو 2012 میں 10 لاکھ سے زائد تھی 2019 تک 12 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔
مسئلہ کب بڑھنا شروع ہوا؟
ہندو مذہب کے ماننے والوں کے نزدیک گائے کے تقدس کی وجہ سے یوپی سمیت بھارت کی کئی ریاستوں میں پہلے بھی اسے ذبح کرنے پر پابندی کے قوانین موجود تھے۔
بھارت میں ماحولیات اور صحت جیسے شعبوں کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والی ویب سائٹ ’ڈاؤن ٹو ارتھ‘ کے مطابق یوپی میں آوارہ مویشیوں کا مسئلہ 2017 سے شروع ہوا۔ اس برس بھارت کی مرکزی حکومت نے جانوروں سے بے رحمانہ برتاؤ کی روک تھام کے لیے ’پریوینشن آف کرولٹی ٹو اینیملز‘ متعارف کرایا تھا۔
SEE ALSO: کیا اتر پردیش کے انتخابات بی جے پی کے لیے ’سیمی فائنل‘ ہیں؟اسی دوران اتر پردیش نے گائے کو ذبح کرنے سے روکنے کے 1955 کے ایکٹ پر سختی سے عمل درآمد شروع کرایا۔ ان دو قوانین کے نفاذ سے ریاست میں ذبح خانے بند ہوئے اور مویشیوں کی خرید و فروخت اور نقل و حرکت میں رکاوٹیں پیدا ہوگئیں۔
قانون اور خوف
ان قوانین کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد یوپی سمیت بھارت کی دیگر ریاستوں میں گائے کے تحفظ کے لیے بننے والے گروہ بھی فعال ہوئے۔
دائیں باز و کے ہندو قوم پرست نظریات کے حامی ان گروہوں کو ’گئو رکھشک‘ کہا جاتا ہے اور گائے کو ذبح کرنے کے شبہے میں ایسے گروپس تشدد کرنے کے واقعات میں بھی ملوث رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق مئی 2015 سے دسمبر 2018 کے دوران بھارت میں گائے کے تحفظ کے نام پر 44 افراد کو قتل کیا گیا جن میں 36 مسلمان تھے۔
رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ پولیس ایسے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں پس و پیش سے کام لیتی ہے اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان گائے کے تحفظ کے نام پر ہونے والے تشدد کی حمایت کرتے ہیں۔
ان گروپس کے خوف سے مویشیوں کی خرید و فروخت متاثر ہوئی جس نے دیہات کی معیشت کو متاثر کیا۔ اس کے علاوہ یوپی میں حکومت گوشت کی دکانوں اور ہوٹلوں میں گوشت کے استعمال پر پابندی لگا رہی ہے جس کی وجہ سے مسلمان بے روزگار ہو رہے ہیں۔
SEE ALSO: آوارہ ’مقدس‘ گائیں، بھارتی کسانوں کیلئے خطرے کی گھنٹیماضی میں وزیر اعظم مودی گئو رکھشک گروپس کے پر تشدد واقعات کی مذمت کرچکے ہیں لیکن ان کے ناقدین اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ گئو رکھشک گروپس کا تعلق بی جے پی سے ہے۔ لیکن بی جے پی ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
نقصان کس طرح ہو رہا ہے؟
ماضی میں کسان غیر پیدواری جانوروں کو فروخت کرکے دودھ دینے والے نئے جانور خرید لیتے تھے یا اس سے حاصل ہونے والی رقوم کو زرعی اخراجات میں استعمال کرتے تھے۔
’ڈاؤن ٹو ارتھ‘ کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے مویشیوں کی تجارت پر جب سے پابندیاں عائد کی ہیں تو کسانوں کی آمدن کا یہ ذریعہ بند ہو گیا ہے۔ بلکہ انہیں دودھ نہ دینے والے ان جانوروں کے اخراجات اٹھانا پڑتے ہیں اور آوارہ مویشی فصلوں میں نقصان اور حادثات کا بھی باعث بنتے ہیں جس سے لوگ براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔ خاص طور پر کئی علاقوں میں بیلوں کے حملوں یا اچانک راستے میں آجانے سے ہلاکتیں بھی ہوچکی ہیں۔
ان نقصانات کے علاوہ مویشیوں کو کھیتوں میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے کسانوں کو خاردار باڑ بھی لگانا پڑتی ہے جو ان کی کاشتکاری کی لاگت میں ایک اور اضافہ ہے۔
آوارہ مویشیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کیوں کہ پٹواری متاثرہ اراضی پر جا کر ہی اس کا پتا لگا سکتا ہے اور اس بارے میں کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
’ڈاؤن ٹو ارتھ‘ کے مطابق فصل کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے وزیر اعظم کی بیمہ اسکیم بھی ہے لیکن اس میں آوارہ مویشیوں کے باعث ہونے والے نقصانات شامل نہیں ہیں اور نہ ہی اس اسکیم میں اس کے لیے کوئی رقم مختص کی گئی ہے۔
SEE ALSO: 'بھارت میں جانور بن کر رہنا زیادہ محفوظ ہے'حکومت کیا کررہی ہے؟
رواں ماہ فشریز اور اینیمل ہزبینڈری کے مرکزی وزیر پرشوتم روپالا نے لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ اتر پردیش حکومت نے 2018 کے بعد آٹھ لاکھ سے زائد مویشیوں کی بحالی پر 21 لاکھ سے زائد بھارتی روپے کے اخراجات کیے ہیں۔
ان کے مطابق ریاستی حکومت کے تحت 5664 گئو شالے کام کررہے ہیں جب کہ مختلف تنظیمیں رضا کارانہ طور پر 572 گئو شالے چلا رہی ہیں۔یوپی کی حکومت فی مویشی دیکھ بھال کے لیے 30 روپے بھی خرچ کررہی ہے۔
سن 2019 میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے اتر پردیش میں گئوشالوں کے لیے مجموعی طور پر ساڑھے چھ ارب بھارتی روپے کا بجٹ مختص کیا تھا۔ جس میں دیہی علاقوں میں قائم گئو شالوں کے انتظامات کے لیے 2 ارب 47 لاکھ روپے رکھے گئے تھے اور دو ارب شہری علاقوں کے لیے رکھے گئے تھے۔
ماہرین کے مطابق اتر پردیش حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ آوارہ مویشیوں کی سالانہ بڑھتی ہوئی تعداد کے اعتبار سے ناکافی ہیں۔
بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے ایڈیٹر دیہی و زرعی امور ہریش دامودرن کے مطابق یوپی حکومت ان مویشیوں کے لیے شیلٹر بنانے کا حل پیش کرتی ہے۔ یہ شیلٹرز چھ سات لاکھ آوارہ مویشیوں کے لیے ہی کافی ہوسکتے ہیں لیکن اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں ہر سال اوسطاً ان کی تعداد میں 10 لاکھ کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
انہوں ںے 2019 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں تخمینہ پیش کیا تھا کہ اگر گئو شالوں میں چھ لاکھ مویشیوں کو بھی رکھا جاتا ہے تو فی مویشی کے چارے پر سو روپے خرچ ہونے کی صورت میں ایک سال کے دوران ان کی خوراک پر 21 ارب روپے سے زیادہ لاگت بنتی ہے۔
SEE ALSO: اترپردیش اسمبلی انتخابات: بی جے پی پر 'مذہبی کارڈ' کا الزام، کیا یوگی پھر وزیر اعلیٰ بن پائیں گے؟جنوری 2019 میں یوپی حکومت نے آوارہ مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے وسائل جمع کرنے کی خاطر ریاست میں شراب کی فروخت اور ٹول کی مد میں 0.5 فی صد ٹیکس لگا دیا تھا۔
اس کے علاوہ یوپی حکومت نے آوارہ جانوروں کی رضاکارانہ دیکھ بھال کی اسکیم بھی متعارف کرائی تھی۔ اس اسکیم کے تحت آوارہ گائے کی دیکھ بھال کرنے والوں کو فی مویشی یومیہ 30 روپے ادا کرنے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ حکومت کے دعوے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد نے اس اسکیم کے تحت مویشیوں کی دیکھ بھال شروع کی ہے۔
بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کے مطابق کسانوں کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں چارے کی قیمت 1400 روپے اور شہری علاقوں میں 2000 روپے فی من ہوچکی ہے۔ اس لیے آوارہ مویشیوں کو رضا کارانہ طور پر پالنے کے لیے اعلان کردہ یومیہ رقم بہت کم ہے اور بہت سے وعدے صرف کاغذوں تک ہی محدود ہیں۔
’گائے ووٹ چر گئی‘
آوارہ مویشیوں کا مسئلہ اس قدر اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی سب سے بڑی حریف جماعت سماج وادی پارٹی نے اسے اپنی مہم کے مرکزی نکات میں شامل رکھا ہے۔
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعلی اکھلیش یادو نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ اگر ان کی جماعت حکومت میں آگئی تو آوارہ مویشی کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو پانچ لاکھ روپے دیے جائیں گے۔
سیاسی و سماجی کارکن اور امورِ سیاسیات کے ماہر یوگیندر یادو کا کہنا ہے کہ یوپی میں آپ کسی کسان سے اگر پانچ منٹ کے لیے بھی بات کریں گے تو اس میں آوارہ مویشیوں کا تذکرہ ضرور ہو گا۔ کسان آپ کو بتائیں گے کہ کس طرح انہیں باڑ لگا کر کھیتوں کی حفاظت کرنا پڑتی ہے اور آوارہ مویشی اس باڑ کو روند کر کھیتوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے دی پرنٹ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں انہوں نے لکھا ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ گئو شالوں کے انتظامات کو بہتر کیا جائے، مویشیوں کی تجارت اور گوشت کے کاروبار کی اجازت دی جائے۔
SEE ALSO: اترپردیش میں مسلم آبادیوں میں ووٹرز کا زیادہ ٹرن آؤٹ، بی جے پی کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں؟ان کے بقول اکھلیش یادو کو معلوم ہے کہ دیہی اتر پردیش میں یہ ایشو ترپ کا پتا ثابت ہو سکتا ہے لیکن ان کی بھی کچھ حدود ہیں۔
یوگیندر یادو لکھتے ہیں اس کے باوجود یوپی الیکشن سے متعلق سماج وادی جماعت کے حامیوں کا کہنا یہی ہے کہ ’بھاجپا(بی جے پی) کا ووٹ تو گیّا(گائے) چر گئی۔‘
کیا بی جے پی مشکل میں ہے؟
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ آوارہ مویشیوں کے معاملے کو اکثر کسان اہم مسئلہ قرار دیتے ہیں اور ان میں بی جے پی حکومت کے حامی کسان بھی شامل ہیں لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ شکایات یقینی طور پر انتخابی نتائج پر بھی اثر انداز ہوں گی۔
یوپی کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو گزشتہ برس کرونا وائرس کے دوران ریاست میں پیش آنے والی سنگین صورتِ حال، بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے تنقید کا بھی سامنا ہے۔
اس کے علاوہ بی جے پی پر اپنی انتخابی مہم کے دوران مذہبی کارڈ کھیلنے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں اور یوگی حکومت شہروں کے مسلم ناموں کی تبدیلی، عبادت گاہوں کی تعمیر اور خاص طور پر ہندو مذہب میں مقدس تصور ہونے والی گائے کے تحفظ اور دیکھ بھال کے لیے اقدامات کو اپنی حکومت کی نمایاں کارکردگی میں شمار کرتے ہیں۔
یوگی آدتیہ ناتھ اپنی حکومت کی کارکردگی کا دفاع کرتے ہیں اور انتخابی مہم میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے کے الزامات کو بھی مسترد کرتے ہیں۔
SEE ALSO: کیا بھارت میں حجاب تنازع ملک گیر تحریک میں بدل رہا ہے؟واضح رہے کہ 2019 کے مرکزی انتخابات سے قبل بھی آوارہ مویشیوں کے باعث یوپی میں بی جے پی کی انتخابی حمایت متاثر ہونے کی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔ لیکن مرکزی انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے یوپی میں لوک سبھا کی 80 میں سے 62 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یوپی میں ووٹنگ کے رجحانات کا تعین کرنے والے محرکات بہت پیچیدہ ہیں۔ ان میں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
بھارتی ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے مطابق معاشی دباؤ، آوارہ مویشیوں کا مسئلہ اور زرعی پیداوار کی خریداری کے نظام سے متعلق شکایات نے پورے یوپی میں کسانوں کو متحد کردیا ہے۔ لیکن زیادہ تر سیاسی جماعتیں اب بھی ذات پات کی بنیاد پر اپنا ووٹ یقینی بنانے کی کوشش کررہی ہیں۔ انہوں نے یا تو کسان کے ان مسائل پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے یا انہیں سرے سے نظر انداز کیا ہوا ہے۔