|
کراچی__ملک میں انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ 30 ستمبر مقرر ہے اور یہ تاریخ قریب آتے ہی حکومت پاکستان نے ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن معیشت اور ٹیکس کے کئی ماہرین کے خیال میں ان اقدامات کی کامیابی امکانات زیادہ روشن نہیں۔
حال ہی میں ملک میں ٹیکس جمع کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈیجیٹائزیشن سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے بورڈ کے ٹرانسفارمیشن پلان کی منظوری دی ہے۔
ایف بی آر کے نئے مجوزہ پلان کے مطابق اثاثے اور ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والوں کو غیر منقولہ جائیداد یا گاڑی خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس پلان میں نان فائلرز کی بینک ٹرانزیکشنز اور اکاؤنٹ کھلوانے پر بھی پابندیاں عائد کرنے کی تجوزی دی گئی ہے۔
اسی طرح یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ غیر رجسٹرڈ مینوفیکچررز، ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کے بینک اکاؤنٹس بھی اس پلان کے تحت منجمد کر دیے جائیں اور پھر بھی ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانے پر ان کی جائیدادیں ضبط کی جائیں اور کروڑوں روپے جرمانہ عائد کیا جائے۔
ٹیکس ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان اعلانات پر عمل درآمد کیا گیا تو یہ ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔ تاہم مختلف ٹیکس ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہوں گے۔
ملک کے معروف ٹیکس کنسلٹنٹ علی رحیم کی رائے میں ڈرا دھمکا کر لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاسکتا۔۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے قبل حکومت کی جانب سے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے متعارف کرائی گئی’تاجر دوست اسکیم‘ بھی زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔
علی رحیم کا کہنا تھا کہ ٹیکس دینے والوں کو مراعات دے کر ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا اور اسی طرح معیشت کو دستاویزی شکل دی جاسکتی ہے۔ یہی آگے بڑھنے کا واحد حل ہے۔
انہوں نے اصرار کیا کہ حکومت سخت اقدامات سے لوگوں کو اثاثے ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی بلکہ لوگ مزید متنفر ہوجائیں گے۔
کن شعبوں سے زیادہ ٹیکس جمع کیا جاسکتا ہے؟
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کئی شعبوں کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جاسکتا ہے اور زراعت اس میں سر فہرست ہے۔
ماہر معاشیات عبدالعظیم خان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی وجہ سے حکومت نے زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کی ہامی تو بھرلی ہے لیکن ابھی اس کے لیے بہت کام کرنا پڑے گا۔
خیال رہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام سے اسٹاف لیول معاہدے کے بعد 12 جولائی کو جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا تھا کہ تمام صوبے زرعی شعبے سے انکم ٹیکس جمع کرنے کے لیے کوششیں بڑھائیں۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف سے قرض ملنے کی اُمید؛ 'یہ پاکستانی معیشت کو ٹریک پر لانے کا اچھا موقع ہے'اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 64 فی صد کابلِ کاشت زمین صرف پانچ فی صد بڑے زمینداروں کی ملکیت میں ہے جبکہ چھوٹے کسانوں کی ایک تہائی تعداد کے پاس ملک کی قابلِ کاشت اراضی کا صرف 15 فی صد ہے۔
اس لیے پاکستان میں بڑے زمینداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں لیکن زرعی آمدن پر ٹیکس کے حامیوں کے بقول اسمبلی میں بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کی بڑی تعداد ایسے کسی اقدام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق زراعت کے بعد سے زیادہ ٹیکس پیداواری یا مینوفیکچرنگ شعبے سے وصول کیا جاسکتا ہے۔ ملک میں اس وقت صرف 16 فی صد مینوفیکچررز سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ ہیں۔
اسی طرح ملک میں محض 25 فی صد ہول سیلر یا تھوک فروش انکم ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ ہیں جب کہ 92 فی صد خوردہ فروش یعنی ریٹیلرز رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال ریئل اسٹیٹ کے شعبے کی ہے۔
عبدالعظیم خان نے بتایا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے انکم ٹیکس فائل نہ کرنے والوں کے ساتھ انکم ٹیکس فائلرز کو بھی ایڈوانس انکم ٹیکس جمع کرنے کا پابند بنایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سیکٹر میں اب بھی ٹیکس جمع کرنے کے لئے کافی خلا موجود ہے لیکن اس کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔
SEE ALSO: غزہ جنگ: کوک،پیپسی بائیکاٹ سے پاکستان اور مصر سمیت ملکوں میں مقامی برانڈز کا فروغحکومت کا کیا کہنا ہے؟
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب ساڑھے نو فی صد ہے اور اتنی کم ٹیکس وصولیوں سے ملک نہیں چلتا۔ اس کے لیے حکومت ہر ممکن اقدامات کرے گی۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے قوانین کو معقول بنانا اور ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن بھی اس سلسلے میں حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔
ان کے مطابق ٹیکس قوانین پر عمل درآمد کو آسان بنانا چاہیے کیوں کہ ٹیکس کی پیچیدگیوں سے معاشی اہداف اور سرمایہ کاری شدید متاثر ہوتی ہے۔