|
اسد خاندان کے نصف صدی کے اقتدار کا انتہائی تیز رفتاری سے خاتمہ کرنے والے اسلام پسند گروپ ہیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کو ملک کا نظم و نسق سنبھالے اب آٹھ روز ہو چکے ہیں۔
پچاس سال کی اس مدت کے دوران روا رکھنے جانے والے جابرانہ طرز عمل، تشدد اور ظلم و زیادتیوں سے رفتہ رفتہ پردہ اٹھ رہا ہے۔
جیلوں کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں کے دروازے کھول کر ان ہزاروں لوگوں کو رہا کیا جا چکا ہے جن کا جرم محض انسانی اور جمہوری حقوق کے لیے آواز بلند کرنا تھا۔
اسد دور میں غائب کیے گئے بہت سے لوگ اب بھی لاپتہ ہیں اور ان کے عزیز و رشتے دار ان کی تلاش میں جیلیں اور حراستی مراکز کھنگالتے پھر رہے ہیں۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں اب کیا ہو رہا ہے؟
اسد نے خاموشی توڑ دی
گزشتہ ہفتے جب باغی برق رفتاری سے شام کے چھوٹے بڑے شہر فتح کرتے دارالحکومت دمشق کی دہلیز پر پہنچے تو بشار الاسد قصر صدارت چھوڑ کر اپنے خاندان کے ساتھ ملک سے فرار ہو گئے اور انہیں روس نے سیاسی پناہ دے دی۔
SEE ALSO: شام چھوڑنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا، روسی فوج نے ماسکو پہنچایا: بشار الاسدکئی دن تک چپ رہنے کے بعد اب انہوں نے اپنی خاموشی توڑ دی ہے اور پیغام رسانی کے ایک پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر معزولی کے بعد اپنا پہلا بیان جاری کیا ہے۔
ان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جب ریاست دہشت گردی کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے اور بامقصد کام کرنے کی صلاحیت جاتی رہتی ہے تو پھر ہر عہدہ بے مقصد و بے حیثیت ہو جاتا ہے۔
شام پر تواتر سے اسرائیلی حملے
اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک اسرائیل شام میں سینکڑوں حملے کر چکا ہے۔
شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ایک نگران گروپ نے پیر کو بتایا کہ اسرائیل نے شام کے ساحلی علاقے طرطوس میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔
SEE ALSO: سیکیورٹی ضمانت ملنے تک فوج شام کے بفر زون میں موجود رہے گی: اسرائیلبرطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے ایک بیان میں طرطوس پر حملے کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ اس علاقے میں کئی برسوں تک کیے گئے حملوں میں سب سے شدید تھا۔
یورپی یونین اسلام پسندوں سے بات چیت کے لیے تیار
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالس نے پیر کے روز بتایا کہ یورپی بلاک کے شام کے لیے ایلچی ملک کے نئے اسلام پسند حکمرانوں سے بات چیت کے لیے دمشق جا رہے ہیں۔
مغرب کے دیگر ممالک کی طرح یورپی یونین کی رکن اقوام بھی شام کی نئی قیادت کے حوالے سے محتاط ہیں کیونکہ ماضی میں کئی ممالک دمشق پر قبضہ کرنے والی اسلام پسند تنظیم ہیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دے چکے ہیں۔
اس گروپ کی جڑیں القاعدہ کی شام کی شاخ سے جڑی ہوئی تھیں، تاہم بعد ازاں ایچ ٹی ایس یہ کہنے کے بعد کہ اس نے اپنا راستہ الگ کر لیا ہے اپنے بیانات میں اعتدال لانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
SEE ALSO: اسد حکومت کا تختہ اُلٹنے والے باغیوں کے سربراہ ابو محمد الجولانی کون ہیں؟ایچ ٹی ایس نے دمشق پر قابض ہونے کے بعد کہا ہے کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ، اور جنگ سے تباہ حال ملک میں امن قائم کرنے کے لیے کام کریں گے۔ انہوں نے اسد دور کے جبر و استبداد کے متاثرین کے لیے انصاف کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔
یورپی یونین خارجہ پالیسی کی سربراہ کالس کہتی ہیں کہ ہم (شام کے معاملے میں) خلا نہیں چھوڑ سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے یہ صرف الفاظ ہی نہیں ہیں۔ ہم اقدامات کو بھی درست سمت میں جاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم صرف یہ نہیں دیکھنا چاہتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایلچی کی الشرع سے ملاقات
شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی گئیر پیڈرسن کے دفتر کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شام میں اختیارات کی منتقلی کا عمل قابل اعتماد اور جامع ہونا چاہیے۔
بیان میں یہ تصدیق بھی کی گئی ہے کہ پیڈرسن نے ٹی ایچ ایس کے لیڈر جولانی، موجودہ نام، احمد الشرع سے ملاقات کی ہے۔ جولانی اب اپنا اصل نام احمد الشرع استعمال کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: شام میں عبوری حکومت کے سربراہ محمد البشیر کون ہیں؟بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے شام کے عبوری وزیراعظم محمد البشیر سے بھی ملاقات کی ہے۔
شام میں سفارتی سرگرمیوں کی شروعات
قطر کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ شام میں ان کا سفارت خانہ منگل سے دوبارہ اپنے کام کا آغاز کر رہا ہے۔
ترکیہ کے وزیر دفاع یاسر گلر نے کہا ہے کہ اگر شام کی اسلام پسند قیادت کی حکومت نے درخواست کی تو انقرہ اسے فوجی امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
ترکیہ نے شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد وہاں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا جو 12 سال کے بعد، ہفتے کے روز دوبارہ کھل گیا ہے۔
SEE ALSO: قطر کا 13 برس بعد شام میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا اعلانفرانس کی ایک سفارتی ٹیم بھی منگل کے روز دمشق میں اپنی تنصیبات دوبارہ کنٹرول میں لینے اور نئے حکام کے ساتھ ابتدائی رابطے شروع کرنے والی ہے۔
امریکہ اور برطانیہ بھی ایچ ٹی ایس سے رابطے میں ہیں
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے ہفتے کے روز کہا کہ واشنگٹن نے ایچ ٹی ایس کے ساتھ رابطہ کیا ہے۔
تاہم انہوں نے اس بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آیا امریکہ براہ راست رابطہ کر رہا ہے؟ تو ان کا جواب تھا۔ ہاں ۔ براہ راست رابطہ۔
اتوار کے روز برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے بتایا کہ لندن نے بھی ایچ ٹی ایس کے ساتھ سفارتی رابطہ قائم کیا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ شام میں مستقبل کی حکومت کی مشروط حمایت کرے گا، بائیڈن انتظامیہامریکہ اور برطانیہ، دونوں نے ہی ایچ ٹی ایس کو ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر نامزد کر رکھا ہے۔
شام کے پاؤنڈ کی قدر میں بہتری کے آثار
شام کے منی چینجرز اور تاجروں نے کہا ہے کہ مقامی مارکیٹ میں غیر ملکی کرنسی دوبارہ دست یاب ہونے سے ڈالر کے مقابلے میں شامی پاؤنڈ کی قدر میں بہتری آ رہی ہے۔
فارن ایکس چینج کے مراکز کی غیر موجودگی میں، کئی برسوں میں پہلی بار شام میں زرمبادلہ کے سرکاری ریٹ اور بلیک مارکیٹ کے ریٹ مساوی نظر آ رہے ہیں۔
دمشق میں سونے کے ایک تاجر راغد منصور نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب کسی ملک میں حکومت گرتی ہے تو کرنسی کی قدر بھی گرتی ہے، لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ شام میں اس کے الٹ ہورہا ہے۔
(اس رپورٹ کی معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)