کراچی: ٹرانسپورٹرز کی ہلاکت کا مقدمہ ایف ڈبلیو او کے اہل کاروں کے خلاف درج

ٹرانسپورٹرز گزشتہ کئی روز سے سراپا احتجاج تھے۔

کراچی کے قریب کاٹھوڑ کے مقام پر بدھ کو سیکورٹی اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والے تین ڈرائیوروں کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمے میں ٹول ٹیکس وصول کرنے والے عملے اور ان کی حفاظت پر مامور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن(ایف ڈبلیو او) کے اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ایف ڈبلیو او پاکستان کی مسلح افواج کا حصہ ہے جو انجینئرنگ اور تعمیرات سے منسلک ہے۔

بدھ کو یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب کاٹھوڑ کے مقام پر ٹول ٹیکس وصول کرنے والے عملے نے عدالتی احکامات کی روشنی میں مقررہ وزن سے زیادہ سامان رکھنے والے ٹرالرز کو کراچی حیدرآباد موٹروے پر جانے سے روک دیا تھا۔ ٹرانسپورٹرز اور انتظامیہ کے درمیان یہ تنازع کئی روز سے چل رہا تھا جس پر نوبت ہنگامہ آرائی اور پھر فائرنگ تک جا پہنچی جس سے تین ہلاکتیں اور بعض افراد زخمی بھی ہوئے۔

مقدمے کے مدعی اور ٹرانسپورٹرز یونائیٹڈ الائنس کے نائب صدر شیر ایوب خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایف ڈبلیو او کے سیکورٹی اہلکاروں نے احتجاج کرنے والے ٹرانسپورٹرز پر براہ راست فائرنگ کی۔ اور اس بات کو انتظامیہ نے بھی تسلیم کرلیا ہے جس پر ان کے خلاف قتل اور اقدام قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

شیر ایوب خان کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹرز کا موقف یہ تھا کہ عدالت کا حتمی فیصلہ آنے تک پہلے سے نافذ العمل لوڈ کی حد برقرار رکھی جائے، جس پر کئی روز سے ٹرانسپورٹرز احتجاج کر رہے تھے۔ انہوں نے اس بات پر بھی حیرانگی کا اظہار کیا کہ ٹول ٹیکس کی وصولی اور مال سے لدی گاڑیوں کی روک تھام نیشنل ہائی وے اتھارٹی(این ایچ اے) اور موٹر وے پولیس کا کام ہے۔ لیکن یہ کام ایف ڈبلیو او سے لیا جارہا ہے جس کی کوئی منطق نہیں۔

ٹرانسپورٹرز کے مطابق ان پر براہ راست فائرنگ کی گئی۔

ادھر آل پاکستان گڈز آنرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری چودھری اویس نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ چوہدری اویس کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو مشتعل مظاہرین سے اس طرح کا سلوک کرنے کے بجائے ان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ انسانی جانوں کے ضیاع پر جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن اس واقعے کو لسانی رنگ دینا غلط ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ان ہی کی ایسوسی ایشن کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے زائد وزن لے کر موٹر وے سے گزرنے والی گاڑیوں کے وزن کی حد مقرر کی تھی جس پر بعض لوگوں کو تحفظات تھے۔

ایف آئی آر ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کے خلاف درج کی گئی ہے

ہلاکتوں کے بعد کراچی حیدرآباد موٹر وے پر ٹرانسپورٹرز نے احتجاج کیا اور دونوں ٹریک بند کر دیے، جس کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ رکن قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ کی قیادت میں وفد اور ٹرانسپورٹرز کے مذاکرات کے بعد موٹروے کو کھول دیا گیا۔

مذاکرات میں شامل رکن صوبائی اسمبلی مرتضیٰ بلوچ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ مذاکرات اپنی جماعت کی قیادت کے کہنے پر کیے۔ ٹرانسپورٹرز کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے پر ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے مقدمہ درج کرکے واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اس واقعے کی شفاف تحقیقات ہوں گی۔

ہلاکتوں پر سوشل میڈیا پر لوگوں کی بڑی تعداد اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کررہی ہے۔ انسانی حقو ق کے کارکنوں، عام شہریوں، پشتون تحفظ موومنٹ، سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر نے بھی واقعے کی مذمت کی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں میں جو بھی ملوث ہو اسے قانون کی گرفت سے نہیں بچنا چاہیے۔ انہوں نے صوبائی حکومت کو واقعے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ تاہم، اس واقعے پر اب تک فوج کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تینوں ہلاک شدگان کا تعلق شمالی وزیرستان میں ان کے حلقہ انتخاب سے تھا۔