|
کان پر پٹی، چہرے پر سنجیدگی لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو ری پبلکن نیشنل کنونشن میں اپنی جماعت کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی قبول کی۔
اپنی تقریر میں انہوں نے خود پر ہونے والے اس قاتلانہ حملے کی تفصیل بتائی جو ان کے اپنے ایجنڈے، خاص طور پر ترکِ وطن سے متعلق ان کے مکمل بیان سے چند روز پہلے ان کی زندگی ختم کر دیتا۔
78 سالہ سابق صدر نے، جو کہ اپنے زور دار اور جارحانہ بیانات کے لیے مشہور ہیں، نامزدگی قبول کرنے کی اپنی تقریر کا آغاز ایک نرم اور گہرے ذاتی پیغام سے کیا۔
لمحہ بہ لمحہ، ہجوم خاموشی سے سن رہا تھا، ٹرمپ نے بٹلر، پنسلوینیا میں اسٹیج پر بیان کے دوران اپنا رخ ایک چارٹ کی جانب موڑا جو اس وقت کے بارے میں تھا جب حملے کے وقت انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے کان سے کوئی چیز ٹکرائی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنا ہاتھ سر پر رکھا اور فوراً دیکھا کہ وہ خون میں لتھڑا ہوا تھا۔
انہوں نے کہا،"اگر میں اس آخری لمحے اپنا سر نہ موڑتا، تو حملہ آور کی گولی ٹھیک اس کے نشانے پر لگتی اور آج رات میں یہاں نہ ہوتا۔ ہم ساتھ نہ ہوتے۔"
ٹرمپ نے 93 منٹ تک تقریر کی جو جدید تاریخ میں طویل ترین تقریر تھی اور جس کے ساتھ ہی وسکانسن کی سوئنگ ریاست میں بڑے پیمانے پر منعقدہ چار روزہ ری پبلکن اجتماع بھی اختتام پذیر ہوا جس میں ہزاروں قدامت پسند سرگرم کارکنوں اور منتخب عہدیداروں نے شرکت کی۔ ووٹرز دو ایسے امیدواروں کے درمیان اندازے کی کوشش کر رہے ہیں جو انتہائی غیر مقبول امیدوار ہیں۔
موت کو قریب سے دیکھنے کے تجربے کے بعد اس سیاسی موقعے کا ادراک کرتے ہوئے اکثر پرجوش خطاب کرنے والے اس ری پبلکن لیڈر نے اس امید میں ایک نیا لہجہ اپنایا کہ اس سے ایک ایسے الیکشن میں مزید تحریک پیدا ہو گی جو بظاہر ان کے حق میں نظر آتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا، "ہمارے معاشرے میں اختلاف اور تقسیم کو ٹھیک ہونا چاہیے۔ ہمیں اسے جلد ٹھیک کرنا چاہیے۔ بحیثیت امریکی، ہم ایک ہی قسمت اور ایک مشترکہ منزل سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم ایک ساتھ اٹھتے ہیں۔ یا ہم ٹوٹ جاتے ہیں،"
ہفتے کے روز کی شوٹنگ میں زخمی ہونے کے بعد ٹرمپ کے دائیں کان پر ایک بڑی سفید پٹی ہے جو پورا ہفتہ رہی ہے۔
ٹرمپ نے کہا، "میں پورے امریکہ کا صدر بننے کے لیے انتخاب لڑ رہا ہوں، آدھے امریکہ کے لیے نہیں، کیوں کہ آدھے امریکہ کے لیے جیتنا کوئی فتح نہیں ہے۔"
ٹرمپ اپنی عام ریلیوں کے مقابلے میں نرم لہجے میں بات کر رہے تھے، انہوں نے ایک ایسے ایجنڈے کا بھی خاکہ پیش کیا جس کا آغاز ان کے اس وعدے سے ہوتا ہے کہ وہ امریکی تاریخ میں ملک بدری کا سب سے بڑا آپریشن ہو گا۔
انہوں نے بارہا غیر قانونی طور پر امریکہ۔ میکسیکو سرحد عبور کرنے والوں پر "حملہ" کرنے کا الزام لگایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے تجارت پر نئے محصولات اور "پہلے امریکہ" کی خارجہ پالیسی کا ذکر بھی کیا۔
ٹرمپ نے یہ غلط بیانی بھی کی کہ ڈیموکریٹس نے 2020 کے انتخابات کے دوران، جو وہ ہار گئے تھے، دھوکہ دہی کی تھی، وفاقی اور ریاستی تحقیقات میں یہ ثابت ہونے کے باوجود کہ کوئی مکمل دھوکہ دہی نہیں کی گئی، اور یہ تجویز بھی کیا کہ "ہمیں اختلاف رائے کو جرم نہیں بنانا چاہیے اور سیاسی اختلاف پر ہراساں نہیں کرنا چاہیے۔" جب کہ وہ طویل عرصے سے اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات کی بات کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے اسقاطِ حمل کے حقوق کا تذکرہ نہیں کیا، وہ مسئلہ جس نے دو سال قبل امریکی سپریم کورٹ کی طرف سے اسقاطِ حمل کے وفاقی طور پر ضمانت شدہ حق کو ختم کرنے کے بعد سے ری پبلکنز کو پریشان کر رکھا ہے۔
اسقاطِ حمل سے متعلق 'رو بمقابلہ ویڈ' کے فیصلے کو ختم کرنے والے سپریم کورٹ کے چھ میں سے تین ججوں کو ٹرمپ نے نامزد کیا تھا۔
ٹرمپ اپنی ریلیوں میں اکثر رو کیس کے پلٹ دیے جانے کا کریڈٹ لیتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ ریاستوں کو اسقاطِ حمل کے اپنے قوانین بنانے کا حق ہونا چاہیے۔
انہوں نے 6 جنوری 2021 کو یو ایس کیپیٹل میں ہونے والی بغاوت کا ذکر بھی نہیں کیا، جس میں ٹرمپ کے حامیوں نے ڈیموکریٹ جو بائیڈن کے مقابلے میں ان کی شکست کی تصدیق کو روکنے کی کوشش کی۔ ٹرمپ طویل عرصے سے اس بغاوت میں قید لوگوں کو "یرغمال" کہہ رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ نے بائیڈن کا ذکر بھی بہت کم کیا اور اکثر اس کے لیے صرف موجودہ انتظامیہ کہہ کر حوالہ دیا۔
ری پبلکن نیشنل کنونشن ایک ایسے وقت ختم ہوا ہے جب صدارتی دوڑ میں ایک غیر یقینی لمحہ آ چکا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
الیکشن میں چار ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور انتخابی دوڑ میں بڑی تبدیلیاں ممکن ہیں، اگر امکان نہیں بھی ہے تو۔
ٹرمپ کی کنونشن میں آمد اس وقت ہوئی جب 81 سالہ ڈیموکریٹک برسراقتدار بائیڈن، کانگریس کے اہم اتحادیوں، عطیہ دہندگان اور یہاں تک کہ سابق صدر باراک اوباما کے، جنہیں ڈیبیٹ میں ان کی تباہ کن کارکردگی کے باعث خدشہ ہے کہ وہ دوبارہ انتخاب جیتنے میں ناکام ہو سکتے ہیں، مسلسل دباؤ کے باوجود اپنی پارٹی کی ممکنہ نامزدگی پر مصر ہیں۔
اتحادیوں کی طرف سے طویل عرصے سے زوردار مہم چلانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، اس کے بجائے بائیڈن COVID-19 کی تشخیص ہونے کے بعد ڈیلاویئر میں اپنی رہائش گاہ پر آئسولیشن میں ہیں۔
کنونشن ہال کے اندر ٹرمپ اور ان کے اہل خانہ پر غباروں کی برسات ہونے سے چند گھنٹے قبل، بائیڈن کی انتخابی مہم کے نائب منیجر کوئنٹن فلکس، ملواکی میں قریب ہی نمودار ہوئے اور بار بار اصرار کیا کہ بائیڈن دست بردار نہیں ہوں گے۔
فلکس نے نامہ نگاروں کو بتایا، "میں بد اخلاقی نہیں کرنا چاہتا، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میں اور کتنی بار اس کا جواب دوں، بیلٹ پر بائیڈن کو تبدیل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا جا رہا ہے۔"
کنونشن میں طاقت کا مظاہرہ
جمعرات کا ری پبلکن پارٹی کا نیشنل کنونشن بائیڈن کی ایک واضح سرزنش کے لیے طاقت کے مظاہرے کی غرض سے ترتیب دیا گیا تھا۔
الٹیمیٹ فائٹنگ چیمپئن شپ کے صدر ڈینا وائٹ نے ٹرمپ کو "ایک حقیقی امریکی برا گدھا" (پارٹی کا انتخابی نشان) قرار دیا۔ کڈ راک نے کورس کے ساتھ ایک گانا پیش کیا، "Fight, fight!," "لڑؤ، لڑو!" یہ الفاظ ٹرمپ نے پنسلوینیا میں اسٹیج پر چیختے ہوئے اس وقت کہے تھے جب سیکرٹ سروس کے ایجنٹ انہیں اسٹیج سے باہر لے جا رہے تھے۔ اور ریسلنگ آئکون ہلک ہوگن نے سابق صدر کو "ایک امریکی ہیرو" قرار دیا۔
ہوگن کو اس وقت ایک نمایاں ردعمل ملا جب انہوں نے مرکزی اسٹیج پر کھڑے ہو کر اپنی قمیض پھاڑی جس پر "ٹرمپ-وینس؛ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں" تحریر تھا۔
ہوگن نے مختصراً اپنے کردار سے ہٹ کر کہا، "ایک فن کار کے طور پر میں سیاست سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں، میں مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔"
سابق خاتونِ اول ملانیا ٹرمپ اور ایوانکا ٹرمپ، جو صدر کی بڑی بیٹی اور سابق سینئر مشیر ہیں، ان کی تقریر سے قبل کنونشن ہال میں ٹرمپ کے ساتھ شامل ہوئیں۔ وہ پہلی مرتبہ منظرِ عام پر آئی تھیں۔ ان میں سے کسی نے خطاب نہیں کیا۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں امریکن پریذیڈنسی پراجیکٹ کی سانتا باربرا کے مطابق، سابق صدر کی تقریباً 93 منٹ کی تقریر میں 74 منٹ اس کے لیے پوشیدہ تھے جس کے لیے انہوں نے آٹھ سال پہلے بات کی تھی۔
کنونشن ری پبلکنز کے اتحاد پر ختم ہوا
کنونشن میں وہ ریپبلکن پارٹی نظر آئی جس کی تشکیلِ نو تب سے ٹرمپ کی طرف سے کی گئی، جب انہوں نے پارٹی کی 2016 کی نامزدگی حاصل کرتے ہوئے پارٹی کے عام لوگوں میں مقبولیت حاصل کی۔
حریف جنہیں ٹرمپ نے شکست دی، ان میں ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز اور فلوریڈا کے مارکو روبیو، اقوامِ متحدہ کی سابق سفیر نکی ہیلی اور فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس شامل ہیں۔ انہوں نے ماضی کی اپنی تنقید بالائے طاق رکھ کر انہیں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
حتیٰ کہ نائب صدر کے لیے ان کا انتخاب، اوہائیو کے سینیٹر جے ڈی وینس، جن کے بارے میں ٹرمپ چاہتے ہیں کہ وہ ان کی تحریک آئندہ نسل تک لے جائیں، کبھی ان کے سخت ناقد تھے۔ انہوں نے ایک نجی پیغام میں کہا تھا اور جسے عام بھی کیا گیا کہ ٹرمپ "امریکہ کا ہٹلر" ہو سکتے ہیں۔
SEE ALSO: امریکی انتخابات:ریپبلکن نائب صدر امیدوار وینس ۔ اسرائیل کے حامی، چین مخالف، مگر یورپ میں بے چینی کیوں؟ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بعد ملواکی میں سیکیورٹی پر بڑی توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ لیکن تقریباً چار دن گزرنے کے بعد، کنونشن ہال کے اندر یا اس کے چاروں طرف بڑے حفاظتی حصار میں کوئی سنگین واقعہ نہیں ہوا۔
سیکرٹ سروس، جسے ملک بھر سے قانون نافذ کرنے والے سینکڑوں افسران کی مدد حاصل تھی، بڑی تعداد میں اور واضح طور پر موجود تھی۔ اور ہر رات ٹرمپ کی کنونشن میں موجودگی کے دوران، وہ جہاں بھی گئے حفاظتی ایجنٹ دیوار کی طرح ان کے ساتھ رہے۔
اسی دوران ٹرمپ اور ان کی انتخابی مہم نے ان کی چوٹ یا ان کے علاج کے بارے میں کوئی معلومات جاری نہیں کیں۔
سابق صدر نے جمعرات کو حملے میں زندہ بچ جانے کی اپنی کہانی بیان کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس کے بارے میں دوبارہ بات نہیں کریں گے۔
ٹرمپ نے کھچا کھچ بھرے کنونشن ہال میں کہا، ’’مجھے آج رات یہاں نہیں ہونا تھا۔" ہزاروں کا مجمع جو خاموشی سے سن رہا تھا، جواباً چلایا، Yes you are’ "ہاں آپ ہیں۔"
اس مضمون میں کچھ معلومات 'اے پی' سے لی گئی ہیں۔