افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بارے میں بڑھتے ہوئے شواہد ہیں کہ افغانستان تیزی سے دہشت گرد سرگرمیوں کے ایک گڑھ میں تبدیل ہو رہا ہے جب کہ کچھ امریکی عہدے دار اس رپورٹ کے اعداد و شمارکو حقیقت پر مبنی نہیں سمجھتے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جو رکن ملکوں کی انٹیلی جینس پر مبنی ہے،اب جب افغانستان کی سر زمین پر امریکہ یا مغربی افواج موجودنہیں ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں القاعدہ اورداعش دونوں سے وابستگی رکھنےوالے افغان گروپ، تعداد اور اہلیت میں کافی حد تک پیش رفت کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق طالبان کے دور میں دہشت گرد گروپوں کو "جوڑ توڑ کرنےکی زیادہ آزادی" ہے اور وہ اس کا "استعمال" کر رہے ہیں۔
رپورٹ کی مزید تفصیلات
پابندیوں کی نگرانی کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ القاعدہ اور طالبان ایک علامتی تعلق برقرار رکھتے ہیں، "القاعدہ طالبان کے زیر انتظام افغانستان کو ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر دیکھتا ہے۔"
اس کے برعکس، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ خراسان نے، جسے داعش کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دور دراز علاقوں پر کنٹرول قائم کرنے میں طالبان کی نااہلیت کے ساتھ ساتھ افغانستان میں طالبان کی حکومت سے عدم اطمینان کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "ہائی پروفائل طالبان شخصیات کے خلاف حملوں نےداعش کے حوصلے بلند کیے، (تنظیم سے)انحراف کو روکا اور بھرتیوں میں اضافہ کیاہے جو طالبان کی صفوں میں سےبھی ہے۔"
اقوام متحدہ کی رپورٹ کا دعویٰ ہے کہ ہر معاملے میں دہشت گرد گروہوں نے اپنی چھاپ میں نمایاں طور پر اضافہ کیا ہے۔
القاعدہ کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک سال قبل افغانستان میں اس کے چند درجن ارکان ہی موجود تھے۔ لیکن اب خیال ہے کہ اس کے 30 سے 60 تک سینئر اہلکار افغانستان میں ہیں۔اس کے علاوہ مزید چار سو جنگجو، 1600 کے لگ بھگ ان کے خاندان کے افراد اور کئی نئے تربیتی کیمپ ملک بھر میں موجود ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق داعش کے ارکان کی تعداد چار ہزارسے چھ ہزار کے درمیان ہو گئی ہے۔ کم از کم 13 صوبوں میں اس کے مضبوط گڑھ یا کیمپ ہیں اور سلیپر سیلز یعنی فی الوقت غیر فعال گروپوں کا ایک نیٹ ورک ہے جو کابل اور اس سے باہر تک پہنچ سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی عہدے دار رپورٹ سے اتفاق نہیں کرتے
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے اندازے خواہ کتنے بھی ہلا دینے والے ہوں، متعدد امریکی عہدیداروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے ایسے شواہد نہیں دیکھے جن سےان نتائج کو تقویت ملتی ہو۔
اس بارے میں بات کر تے ہوئےانٹیلی جینس کے ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پروائس آف امریکہ کو بتایا کہ "یہ اعدادوشمار کئی شعبوں میں ہماری انٹیلی جینس کمیونٹی کے تجزیے کے مطابق نہیں ہیں۔"
ایک اور اہلکارنے اس سے بھی زیادہ دو ٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں القاعدہ اورداعش کے حجم کے تخمینے کو "توازن سے باہر" قرار دیا۔ "
انتظامیہ کے اس سینئر اہلکار نے وی او اے کو اسی طرح نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تعداد امریکی انٹیلی جینس کمیونٹی کے بہترین اندازوں اور درحقیقت ہمارے شراکت داروں اور اتحادیوں کے بہترین تخمینوں سے کہیں زیادہ ہے۔
سینئر اہلکار کے مطابق امریکی انٹیلی جینس کا اندازہ ہے کہ اس وقت افغانستان میں القاعدہ کے ایک درجن سے بھی کم بنیادی ارکان موجود ہیں اور جب سے امریکہ نے القاعدہ کے مرکزی رہنما ایمن ا لظواہری کوجولائی 2022 میں ایک فضائی حملے میں ہلاک کیا ہےاس کے بعد سے افغانستان میں القاعدہ کا کوئی سینئر رہنما موجود نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اہلکار نے کہا کہ القاعدہ نے "اگست 2021 میں امریکی انخلاکے بعد سے افغانستان میں اپنی موجودگی کو دوبارہ تشکیل نہیں دیا ہے۔
عہدے دار نے مزید کہا کہ القاعدہ کی جانب سے افغانستان میں تربیتی کیمپ قائم کرنے کی کوششوں کا امکان نہیں ہے، جیسا کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے۔
امریکہ نے اقوامِ متحدہ کے بعض رکن ممالک کی طرف سے شیئر کی گئی اس انٹیلی جینس کو بھی مسترد کر دیا کہ القاعدہ کے ڈیفیکٹو رہنما سیف العدیل نے ایران میں اپنا اڈہ چھوڑ کر 2022 میں افغانستان کا دورہ کیاتھا۔ کم از کم ایک رکن ملک نے دعویٰ کیا ہےکہ سیف العدیل اب ایران سے باہر افغانستان میں ہیں۔
سینئر اہل کار نے اقوام متحدہ کی جانب سےبتائی جانے داعش کے جنگجوؤں اور ان کےخاندان والوں کی تعداد کو بھی امریکی اندازوں سے کہیں زیادہ قرار دیا۔
تجزیہ کار اقوام متحدہ اور امریکہ کے موقف کے بارےمیں کیا کہتے ہیں؟
واشنگٹن کے " نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجی اینڈپالیسی" کے یوریشین سیکیورٹی کے سینئر ڈائریکٹر کامران بخاری اقوام متحدہ اورامریکی عہدہ داروں کی جانب سے افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی تعداد کے اندازوں میں اس نمایاں فرق کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں امریکی مؤقف درست ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ آپ اسے امریکہ اور طالبان کے درمیان "کنورژن آف انٹرسٹ کہہ لیں، نہ تو طالبان چاہتے ہیں کہ یہ گروپ اس نوعیت کی کوئی کارروائی کریں اور نہ ہی امریکہ چاہتا ہے کہ ایسا ہو۔ایک طرح سے امریکہ نے کہا ہے کہ آپ ان گروپوں کو کنٹرول کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کامران بخاری نےمزید کہا کہ"میرے خیال میں ایک پوائنٹ پر آ کر بائیڈن انتظامیہ نے اور اس سے پہلے ٹرمپ انتظامیہ نے بھی کہاتھا کہ آپ ان گروپوں پر کڑی نظر رکھیں اور قابو میں رکھیں کیسے ؟یہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔ تو یہ امریکہ کی دونوں ہی سیاسی پارٹیوں کا نظریہ ہے۔"
کامران بخاری نے اس ضمن میں طالبان کی جانب سے داعش کے ایک بڑے لیڈر کی حالیہ ہلاکت کا حوالہ دیا۔
اپریل میں امریکی حکام نے کہا تھا کہ امریکی انٹیلی جینس کے تجزیہ کاروں کو اپریل کے اوائل میں معلوم ہوا تھا کہ حملے کا ماسٹر مائنڈ جس کی شناخت بتانے سے انہوں نے گریز کیا ہے، افغانستان میں طالبان کی کارروائی میں مارا جا چکا ہے۔
حکام نے بتایا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا طالبان نے اسے خاص طور پرہدف بنایا یا وہ طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی میں مارا گیا ۔
SEE ALSO: طالبان نے اگست 2021 میں کابل ایئرپورٹ حملے میں ملوث داعش کے لیڈر کو ہلاک کر دیاکامران بخاری کے مطابق یہ ایک طرح سے ایسا انتظام ہے جو بیان نہیں کیا گیا جہاں طالبان اپنے طریقہ کار سے اور اپنے مفاد کے لیےان جنگجوؤں کو روک رہے ہیں اور امریکہ کے لیے بھی یہ ٹھیک ہے۔ اس لیے خطرے کی گھنٹیاں نہیں بج رہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ اقوامِ متحدہ نے رپورٹ میں جن رکن ملکوں کی انٹیلی جینس کا حوالہ دیا ہے کیا ان میں پاکستان بھی شامل ہے؟
کامران بخاری نے کہا کہ" پاکستان سمیت بہت سے ملک ہوسکتے ہیں، سینٹرل ایشین ملک ہیں،پاکستان کی ان پٹ بھی ہو گی، اس طرح آج کل ایران اور طالبان کی بھی نہیں بن رہی تو شاید وہ بھی انٹیلی جینس فیڈ کر رہے ہوں، اسی طرح چین بھی۔بہرحال تاجکستان اور ازبکستان تو ہیں۔"
پاکستان کو بھی خدشہ ہے کہ ٹٰی ٹی پی کے تعلقات داعش سے مضبوط ہوجاتے ہیں یا تعاون ہوجاتا ہے تو پھر پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔اس لیے انٹیلی جینس فراہم کرنا پاکستان کے مفاد میں بھی ہے۔
SEE ALSO: امیر جماعت اسلامی سراج الحق پرحملے میں کون ملوث ہوسکتا ہے؟پاکستان میں فاٹا کے سابق سیکیورٹی چیف اور افغان امور کے ماہر بریگیڈیئر (ر)محمود شاہ نے بھی انہی خیالات کا اعادہ کیابلکہ ان کا کہنا تھا کہ اب افغانستان میں القاعدہ کا وجود برائے نام ہی رہ گیا ہے۔
اُن کے بقول داعش کے طالبان سے خراب تعلقات ہیں اور وہ افغانستان کے اندر حملے کرتے رہتے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ انہیں باہر سے فنڈنگ ملتی ہے۔
بریگیڈیئر محمود شاہ نے کہا کہ تعداد کے لحاظ سےاقوام متحدہ کا ڈیٹا بہت پرانا لگتا ہے کیوں کہ نہ صرف ان گروپوں کی افرادی قوت بہت کم رہ گئی ہے بلکہ ان کی آپریشنل اہلیت تقریبأ’ زیرو‘ ہے اوروہاں ان کے کوئی تربیتی کیمپ نہیں ہیں۔
محمود شاہ اور کامران بخاری دونوں نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کےاس نکتے سے اتفاق کیا کہ القاعدہ کے طالبان کے ساتھ تعلقات ہیں لیکن داعش کے نہیں۔کامران کا کہنا تھا کہ القاعدہ اپنی بقا کے لیے طالبان پر انحصار کرتی ہے۔
کامران بخاری نے کہا کہ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب امریکہ کی انٹیلی جنس مضبوط ہوجاتی ہے تو وہ زیادہ اعتماد محسوس کرتے ہیں۔ اس کےبعد ان عناصر کو ختم کیا جاتا ہے تو امریکہ کو زیادہ تشویش اس وقت تھی جب داعش مختلف ملکوں میں پھیل رہی تھی، اور امریکہ کی انٹیلی جینس اتنی اچھی نہیں تھی۔
بقول ان کے اب صورتِ حال یہ ہے کہ امریکہ نے ایک ایسا جاسوسی کا نظام تشکیل دے دیا ہے کہ وہ واقعات پر کڑی نظر رکھ سکتا ہے اور اس کی انٹیلی جینس کی اہلیت پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔