"مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ کون سا ہنر ہے جو ملازمت دینے والوں کو چاہیے، آٹھ برس سے ملازمت کے لیے درخواستیں دے دے کر اب تو فوٹو کاپیوں کے پیسے بھی نہیں رہے۔ یہ کہنا ہے راولپنڈی کے یاسر کا جو ایم فل کرنے کے بعد بھی کئی برسوں سے ملازمت ڈھونڈ رہے ہیں۔"
نوجوانوں کو ملازمت نہ ملنا ایک اہم مسئلہ ہے جس پر بارہا بات کی جاتی ہے لیکن یہ ملازمتیں کس وجہ سے نہیں ملتیں۔ اس پر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی پرو وائس چانسلر ڈاکٹر درِنایاب کہتی ہیں کہ میں نے پچھلے چند برسوں میں ایک ہزار سے زائد انٹرویو کیے لیکن نوجوانوں کو نوکری نہیں ملتی اور ہمیں مطلوبہ ہنر مند نہیں ملتے۔
پاکستان میں غربت اور مہنگائی میں لگاتار اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہے۔
اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی جانب سے کی گئی حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان کے ڈگری یافتہ نوجوانوں میں سے 31 فی صد اس وقت بیروزگار ہیں۔
'پائیڈ' کی طرف سے جاری کردہ یہ رپورٹ ادارے کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق اور پرو وائس چانسلر ڈاکٹر درِنایاب نے تحریر کی ہے۔ رپورٹ میں ملک کے شہری اور دیہی علاقوں میں بیروزگاری اور بالخصوص پڑھے لکھے بیروزگار نوجوانوں کے حوالے سے تحقیق کی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈگری یافتہ بیروزگار
رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر ڈگری یافتہ نوجوان مرد و خواتین میں بیروزگاری کی شرح 31.2 فی صد ہے جس میں شہروں میں 43.5 اور دیہی علاقوں میں 20.3 فی صد نوجوان بیروزگار ہیں۔
مردوں میں مجموعی بیروزگاری کی شرح 15.9 جب کہ خواتین میں یہ شرح 50.8 فی صد ہے۔ شہروں میں رہنے والے 19 فی صد اور دیہی علاقوں میں رہنے والے 13 فی صد مرد نوکریوں کے بغیر ہیں۔ جب کہ خواتین میں شہروں میں رہنے والی 66 فی صد اور دیہی علاقوں میں رہنے والی 31.7 فی صد ملازمتوں سے محروم ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور ان کے پاس عام یونیورسٹی کی ڈگریوں کے ساتھ انجینئرز اور ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں کو ملازمتیں ملنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور ایک عام نوجوان کو ملازمت حاصل کرنے میں ایک دہائی کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بیشتر نوجوانوں کو 30 سال کی عمر کے بعد ملازمت ملتی ہے۔
رپورٹ میں لیبر فورس سروے 2019-2018 کے اعداد و شمار دیے گئے جن کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی مجموعی شرح 6.9 فی صد ہے۔ مردوں میں بیروزگاری کی شرح 5.9 اور خواتین میں 10 فی صد ہے۔ شہری علاقوں میں رہنے والے 6.4 اور دیہی علاقوں میں رہنے والے 7.9 فی صد افراد بیروزگار ہیں۔
'جن کی عمر کام کی ہے ان میں سے 55 فی صد کوئی کام نہیں کرتے'
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حیرت انگیز طور پر کام کرنے والے عمر کے گروپ کا ایک بڑا حصہ لیبر فورس کا حصہ بھی نہیں ہے۔ یہ لوگ یا تو کام سے کتراتے ہیں یا پھر ان کی مدد کے لیے آمدنی کے دوسرے ذرائع ہیں کہ انہیں ملازمت کی ضرورت نہیں پڑتی۔
خواتین کے لیے مختلف مراعات کے باوجود لیبر فورس میں ان کاحصہ بہت کم ہے۔ ملک کا سماجی کلچر خواتین کو لیبر فورس کا حصہ بننے سے روکتا ہے۔ خواتین کی لیبر فورس میں عدم شمولیت خواتین کی مجموعی بیروزگاری کی شرح میں اضافے کی بھی وجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی آدھی آبادی ملک کی ترقی میں خاطر خواہ حصہ نہیں ڈال رہی۔
لیبر فورس سروے 2019-2018 کے مطابق کام کرنے والی عمر کے 32 فی صد مرد اور 79 فی صد خواتین کام نہیں کر رہے، مجموعی طور پر کام کرنے کی عمر کے 55 فی صد افراد کوئی کام نہیں کر رہے۔
'کام کرنے والی خواتین کی 57 فی صد آبادی بغیر تنخواہ کے کام کر رہی ہے'
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمتوں کے مواقع نہ ملنے کی وجہ سے 23 فی صد مرد و خواتین بغیر کسی تنخواہ کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔37 فی صد افراد کاروبار یا ذاتی آمدن پر گزارہ کر رہے ہیں جب کہ 40 فی صد باقاعدہ ملازمتوں سے آمدن حاصل کر رہے ہیں۔ خواتین کی 57 فی صد تعداد کسی تنخواہ کے بغیر کام کر رہی ہے۔
بغیر تنخواہ کے کام کرنے والی لیبر کا بڑا حصہ زراعت کے شعبہ میں ہے۔ یہ شرح دیہات میں 49 فی صد تک ہے جب کہ کچھ لوگ شہری علاقوں میں مینوفیکچرنگ، تعمیرات اور ٹرانسپورٹیشن کے شعبوں میں بھی بغیر تنخواہ کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔
'ماہانہ اُجرت حکومت کی مقررہ اجرت سے بھی کم ہے'
رپورٹ میں تنخواہ پر کام کرنے والے افراد کے معاوضوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ملازمتوں کے معیار مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔
مردوں کے لیے ماہانہ تنخواہ مقررہ دن اور گھنٹوں سے زائد کام کرنے کے باوجود حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کم از کم تنخواہ سے کم ہے۔ خواتین کے کام کے اوقات نسبتاً کم ہیں لیکن انہیں تنخواہ کم سے کم اجرت سے بھی کم دی جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیبر فورس سروے کے مطابق پاکستانی مرد ہفتہ وار 50.9 گھنٹے اور خواتین 32.3 گھنٹے کام کرتی ہیں۔ مجموعی طور پر مرد و خواتین 46.6 گھنٹے کام کرتے ہیں لیکن مردوں کو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ 25 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے بجائے اوسطاً 22ہزار 172 اور خواتین کو 15 ہزار 461 روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر مرد و خواتین کو اوسطً 21 ہزار 326 روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔
رپورٹ میں مختلف شعبوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے جس کے مطابق کنسٹرکشن انڈسٹری میں حکومتی مراعات کے باوجود آٹھ فی صد لیبر فورس کام کر رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں 55 فی صد زراعت، 10 فی صد ہول سیل اور ریٹیل، 4.8 فی صد دفاع، تین فی صد تعلیم اور دیگر شعبوں سے منسلک ہیں۔ جب کہ شہری علاقوں میں 24 فی صد مینوفیکچرنگ، 25 فی صد ریٹیل اور ہول سیل کاروباری، 6.5 فی صد زراعت، 7.6 فی صد ٹرانسپورٹیشن اور تین فی صد خوراک کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
'سرکاری ملازمت کو آئیڈیل سمجھا جاتا ہے'
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سرکاری ملازمت چاہے وہ سول ہو یا ملٹری ملازمتوں کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہیں۔
سرکاری ملازمت کو ترجیح دینے کی ایک بڑی وجہ نجی شعبہ میں تنخواہیں سرکاری ملازمتوں کی نسبت بہت کم ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمتوں میں جاب سیکیورٹی، ملازمت کے معیار پر کوئی چیک نہ ہونا بھی سرکاری ملازمتوں کو ترجیح دینے کی وجہ ہیں۔
سرکاری شعبہ میں پبلک ایڈمنسٹریشن اور دفاع کے شعبہ میں اوسطاً تنخواہ 40 ہزار روپے تک دی جاتی ہے۔
'پائیڈ' کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60 فی صد لوگ 30 برس کی عمر تک کے نوجوان ہیں۔ لیکن ان میں سے شہری اور دیہی آباد کے ایک تہائی نوجوانوں کے لیے ملازمت کے مواقع نہیں ہیں۔ خواتین کو نظام سے باہر رکھے جانے کی شرح 60 فی صد تک ہے جہاں انہیں سماجی کلچر کے نام پر جلد شادی اور بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور ورک فورس کا حصہ بننے سے انکار کیا جاتا ہے۔
'عالمی معیار کے مطابق تعلیم ناگزیر'
پائیڈ کی رپورٹ میں اس صورتِ حال کے حوالے سے کچھ تجاویز بھی دی گئی ہیں کہ اسے کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم جو ورک فورس پیدا کر رہی ہے عالمی سطح پر اس کی کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے۔
دنیا بھر میں آرٹیفشل انٹیلی جنس، انفارمیشن مینجمینٹ اور ڈیٹا پروسیسنگ، آٹومیشن، روبوٹکس، زرعی ٹیکنالوجی، بائیو میڈیکل سائنس، سنتھیٹک بیالوجی، کلائیمٹ چینج سمیت کئی شعبے ایسے ہیں جہاں ورک فورس کی ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ان پرکام ہو ہی نہیں رہا اور اگر ہو بھی رہا ہے تو بہت کم ہے۔
ڈاکٹر درِنایاب نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس وقت اکانومی کے لیے بہت گھٹن زدہ ماحول ہے۔
اُن کے بقول ملک میں اس وقت اکانومی چل نہیں رہی تو ملازمتیں کہاں سے آئیں گی۔ ہر کام کے لیے اتنی پابندیاں اور ریگولیشنز ہیں کہ کوئی بھی کام اور کاروبار نہیں چل رہا، جب کوئی کاروبار نہیں چلے گا تو اقتصادی ترقی اور ملازمتیں کیسے آئیں گی۔
ڈاکٹر درِنایاب نے کہا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو ملازمتیں نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم انہیں جو تعلیم دے رہے ہیں وہ بھی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ اب صورتِ حال یہ بن گئی ہے کہ ملازمت ڈھونڈنے والے کو ملازمت نہیں مل رہی لیکن ملازمت دینے والے کو مطلوبہ ملازم بھی نہیں مل رہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو تعلیم بچوں کو دے رہے ہیں وہ کسی کے بھی کام کی نہیں ہے اور ہمیں اس سلسلہ میں اپنے معیار کو بہتر بنانا ہو گا۔
البتہ حکومتِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ملکی معیشت اب بتدریج بہتر ہو رہی ہے جس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کے اس نے تعمیراتی شعبے میں مراعات دی ہیں جس کے نتیجے میں یہ سیکٹر تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور یہاں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں۔