صفیہ بی بی اور ان کے شوہر حیدر علی کراچی کے علاقے اورنگی ٹاون کی توحید کالونی کے مکین ہیں۔ دونوں گھر کا خرچ پورا کرنے کے لیے فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔کھانے پینے، بجلی کے بل اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات کے ساتھ انہیں ہر ماہ چار سے پانچ ہزار روپے کا پانی بھی خریدنا پڑتا ہے۔ جب کہ گرمیوں میں یہ خرچہ نو سے 10 ہزار روپے پر جا پہنچتا ہے۔ قلیل آمدن کے باعث ایسے میں اکثر انہیں راشن کی رقم یا پھر بچوں کی تعلیم سے کٹوتی کر کے کچھ رقم پانی کے لیے بچا کر رکھنا پڑتی ہے۔
یہ کہانی توحید کالونی کے تقریباََ ہر گھر کی ہے جہاں سرکاری سپلائی لائن میں پانی آتا تو ہے البتہ گھنٹوں نہیں بلکہ کئی ماہ بعد۔ اور وہ بھی بدبودار اور کھارا جسے استعمال میں لانا ممکن نہیں ہوتا۔
ایسے میں ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے کچھ عرصہ قبل زمین سے پانی نکالنے کے لیے کی گئی بورنگ سے ہینڈ پمپ کے ذریعے حاصل کیا جانے والا پانی بھی غنیمت ہے البتہ اکثر ہینڈ پمپ خشک ہو گئے ہیں جن میں اگر کبھی پانی آ بھی جاتا ہے تو وہ کھارا ہوتا ہے۔
صفیہ بی بی کا کہنا ہے کہ شدید گرمی میں بھی بعض اوقات ان کے بچے کئی کئی دن نہانے سے محروم رہتے ہیں کیوں کہ آمدن کم ہونے کی وجہ سے وہ ہر ماہ ہزاروں روپےکا پانی نہیں خرید سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ بچے تو پھر بھی گزارہ کر لیتے ہیں لیکن اصل پریشانی تو خواتین کو جھیلنا پڑتی ہیں جنہیں گھر میں تقریباََ ہر کام کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگ نقل مکانی پر مجبور
اورنگی ٹاؤن میں کئی ایسے گھر بھی ہیں جن کے مکین اب ان کو چھوڑ کر جاچکے ہیں کیوں کہ یہاں پانی دستیاب نہیں ہے اور ہائیڈرنٹ سے واٹر ٹینکر کے ذریعے پانی خریدنا ان کے بس کی بات نہیں۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پانی آتا تو کئی ماہ بعد ہے البتہ کچھ علاقوں میں پانی کے بل تواتر کے ساتھ آ رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ کہانی توحید کالونی کی نسبتاََ اس غریب بستی ہی کی نہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے پوش ترین علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کی بھی ہے۔ڈی ایچ اے میں زمین کی قیمت فی اسکوائر یارڈ 80 سے 90 ہزار روپے تک بلند بھی ہے البتہ وہاں بھی بیشتر علاقوں میں پانی نہیں آتا اور مکین پانی خریدنے کے لیے متوسط علاقوں کی نسبت زیادہ اخراجات برداشت کرتے ہیں۔
واٹر ہائیڈرنٹ میں پانی موجود لیکن سپلائی لائنز کیوں خشک ہیں؟
بعض لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ جب سپلائی لائن کی شکل میں پانی کی فراہمی کا نظام موجود ہے تو پھر شہریوں کے گھروں میں پانی دستیاب ہونے کے بجائے واٹر ہائیڈرنٹ سے ہی انہیں کیوں خریدنا پڑتا ہے؟
کراچی میں شہری امور پر تحقیق اور تربیت سے منسلک ادارے ’اربن ریسورس سینٹر‘ کے جوائنٹ ڈائریکٹر زاہد فاروق اس حوالے سے کہتے ہیں کہ کراچی میں پانی کی خرید و فروخت ایک بہت بڑا اور کامیاب کاروبار بن چکا ہے۔ یہ کاروبار چلانے والے آہستہ آہستہ مافیا کا روپ دھار چکے ہیں۔
ان کے مطابق اس مافیا کو شہر میں پانی کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے ’کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ‘ (کے ڈبلیو ایس بی) کے اہل کاروں سے لے کر افسران تک کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے۔ ان کی ملی بھگت سے سپلائی لائنوں میں ملنے والا پانی چوری ہو جاتا ہے جو فیکٹریوں، ملوں اور دیگر مقاصد کے ساتھ اب گھریلو استعمال کے لیے بھی فروخت ہوتا ہے جب کہ شہریوں کے گھروں میں پانی پہنچانے کے لیے قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کر کے سپلائی لائنز بچھائی گئیں البتہ ان کے گھروں میں پانی برسوں سے نہیں آ رہا۔
زاہد فاروق کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں یہ سب کھلے عام ہو رہا ہے۔ ریاست نے شہریوں کو پانی جیسی بنیادی ضرورت کی چیز فراہم کرنے کے لیے جو ادارے بنائے ہیں اس کے اہل کار اس دھندے میں ملوث ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ کئی کارروائیوں میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو مسمار بھی کیا جاتا رہا ہے۔ سامان بھی ضبط ہونے کی خبریں آتی رہی ہیں البتہ اس کاروبار میں ملوث ملزمان کو سزائیں ملنے کی شرح بہت کم ہے کیوں کہ ایسا کرنے میں کسی کی کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔
پانی کے سوداگر مافیا کیسے بن گئے؟
شہری امور کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں یہ مافیا چند ماہ یا ایک دو برس میں وجود میں نہیں آئی بلکہ اس شعبے میں غیر قانونی کاروبار کو پروان چڑھنے کا موقع اس وقت ملا جب 1990 کی دہائی میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے پانی کی فراہمی کو کمرشل بنیادوں پر استوار کیا اور لوگوں کو پانی ان کے گھروں کی دہلیز پر فراہم کرنے کے بجائے ہائیڈرنٹ سے خریدنے پر مجبور کیا۔
ان کے مطابق آنے والے برسوں میں جوں جوں شہر میں پانی کی کمی ہوتی گئی۔ یہ کاروبار مزید بڑھتا گیا اور اب شہر میں انتظامیہ کی ناک کے نیچے درجنوں غیر قانونی ہائیڈرنٹس موجود ہیں جو انتظامی افسران کی آشیر باد کے بغیر چلنا ممکن ہی نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کے ہر ضلع میں قائم کیے جانے والے قانونی ہائیڈرنٹس، انتظامیہ کی جانب سے ایک طرح سے اس بات کا اعتراف بھی ہیں کہ پانی کی سپلائی کا موجودہ نظام کام نہیں کر رہا کیوں کہ شہر میں تین چار دہائیوں قبل جہاں 400 ، 500 یا 1000 گز کے بنگلے ہوا کرتے تھے اب ان کی جگہ اونچی عمارتوں نے لے لی ہے جہاں ایک دو خاندانوں کے بجائے درجنوں خاندان مقیم ہیں۔ سیوریج، شاہراہوں اور دیگر بنیادی ضروریات کی طرح پانی کی سپلائی لائنیں تو وہی ہیں۔ اس لیے ایسی بلند و بالا عمارتوں میں پانی کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے واٹر ٹینکرز کے ذریعے پانی منگوایا جاتا ہے اور یوں ہائیڈرنٹس سے پانی کا حصول غلط پلاننگ اور شہری امور کے متعلقہ اداروں کی خاموشی کی وجہ سے اب ضرورت بن چکا ہے۔
’پانی کی فراہمی کا ایک ارب 60 کروڑ ڈالرز کا منصوبہ جاری ہے‘
کراچی میں پانی کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے حکام سے وائس آف امریکہ نے بات کرنے کی بار ہا کوشش کی۔ کے ڈبلیو ایس بی کے مینجنگ ڈائریکٹر(ایم ڈی) اسد اللہ خان کو پیغامات بھی ارسال کیے گئے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
البتہ حکومتِ سندھ کے محکمۂ بلدیات کے سیکرٹری سید نجم احمد شاہ کے مطابق شہر کے تمام علاقوں میں مستقل فراہمیٴ آب کے لیے متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز اپروومنٹ پروجیکٹ پر مرحلہ وار کام جاری ہے جس کے تحت کے ڈبلیو ایس بی میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ منصوبے کے تحت انفراسٹرکچر کو بہتر بنا کر پانی کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی اور اس 12 سالہ منصوبے کے لیے سال 2032 تک ایک ارب 60 کروڑ ڈالرز خرچ کیے جائیں گے جو ورلڈ بینک فراہم کر رہا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس منصوبے سے شہر میں پانی کی فراہمی کے نظام میں بہتری کی امید ہے۔
’کراچی کو پانی کی فراہمی بھی ضرورت کے مطابق نہیں‘
شہری امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی کو دستیاب پانی کی قلت میں گزرتے وقت کے ساتھ شدت آتی جا رہی ہے۔ گزشتہ 17 برس میں آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران شہر کے لیے پانی کی فراہمی میں ایک بوند کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔
کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ حکام کے مطابق اس وقت کراچی کو تقریبا 1200 ملین گیلن پانی یومیہ پر درکار ہے جب کہ شہر کو دریائے سندھ اور حب ڈیم دونوں سے 550 ملین گیلن پانی یومیہ مل رہا ہے۔ اس سے بھی گھمبیر مسئلہ شہر میں پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کا ہے جہاں بہت سے علاقوں میں پانی مفت اور 24 گھنٹے مل رہا ہے جب کہ بعض علاقوں میں پانی ہفتوں، مہینوں بلکہ برسوں نہیں آتا۔
حکام کہتے ہیں کہ شہری بورنگ کرا کر زیرِ زمین پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں یا آبادی کا بڑا حصہ اس مقصد کے لیے ٹینکرز کے ذریعے مہنگے داموں پانی خرید رہا ہے۔