گزشتہ دس برسوں سے ایک ایسے ملک میں جو جنگ سے برباد ہو چکا ہے اور جس کی سرزمین پر غیر ملکی فوجیں موجود ہیں، امریکہ اور نیٹو کے اتحادی ممالک باغیوں سے لڑ رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ خیر سگالی قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں، امریکی فورسز نے اسلام کی مقد س کتاب، قرآن شریف کے چند نسخے اتفاقاً نا دانستہ طور پر جلا دیے۔ ایک وڈیو منظرِ عام پر آیا جس میں امریکی فوجیوں کو طالبان جنگجوؤں کی لاشوں پر پیشاب کرتے دکھایا گیا تھا، اور تازہ ترین واقعہ یہ ہوا ہے کہ ایک امریکی سپاہی پر 16 افغان دیہاتیوں کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اسی زمانے میں، ایسے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے جن میں افغان سکیورٹی فورسز نے اپنے اسلحہ کا رُخ نیٹو کے سپاہیوں اور مشیروں کی طرف کر دیا ہے، اور ملک میں امریکہ کے خلاف مظاہرے ہونےلگے ہیں۔
یو ایس آرمی وار کالج کے پروفیسر لیری گڈسن کہتے ہیں کہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان تعلقا ت میں سخت کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس تعلق میں ٹوٹ پھوٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کی موجود گی کو اب دس برس ہو چکے ہیں اور افغانستان کے لوگوں نے اپنی سرزمین پر غیر ملکیوں کی موجودگی کو کبھی پسند نہیں کیا۔ باغی گروپ بھی زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں۔ بغاوت میں کئی گروپ ملوث ہیں اور مختلف قسم کی سرگرمیاں جاری ہیں۔‘‘
افغانستان میں امریکہ اور اتحادی فوجوں کے سابق کمانڈر، ریٹائرڈ لیفٹینینٹ جنرل ڈیوڈ بارنو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان واقعات سے نہ صرف افغانستان میں بلکہ امریکہ میں بھی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ گزشتہ چھ سے آٹھ ہفتوں میں افغانستان میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جن کی وجہ سے یہاں امریکہ میں انتظامیہ پر اور قانون سازوں پر سخت دباؤ پڑا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کس رخ پر جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں ، ان واقعات سے افغانستان کے مقابلے میں، یہاں امریکہ میں تشویش میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔‘‘
افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے امریکہ اور نیٹو سے کہا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو اپنے اڈوں پر واپس بلا لیں اور سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کر دیں۔ لیری گڈسن کہتے ہیں کہ عجلت میں فوجوں کو واپس بلانے سے دیہی علاقوں میں افغان فورسز کو تربیت دینے، اور انہیں طبی امداد اور سازو سامان کی فراہمی کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ گڈسن کے مطابق ’’ان حالات میں آپ کی اسٹریٹجی خطرے میں پڑ سکتی ہے کیوں کہ اگر تربیت دینے والا عملہ اور دوسرا سازو سامان موقعے پر موجود نہ ہو ، تو آپ افغان فورسز کو کس طرح تربیت دے سکتے ہیں۔
لیکن جنرل بارنو کہتے ہیں کہ افغان صدر جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے جو امریکہ پہلے ہی طے کر چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ کام پہلے ہی شروع ہو چکا ہے ۔ اگر آپ یہ دیکھیں کہ اس سال اکتوبر تک امریکی فوجیں تقریباً 91,000 سے کم ہو کر 68,000 رہ جائیں گی، تو پورے ملک کے بہت سے علاقوں سے فوج کو نکالنا پڑے گا ۔ یہ سیدھا سادھا حساب ہے ۔ آپ کو کچھ اڈے بند کرنے پڑیں گے اور بعض علاقے افغان فورسز کے حوالے کرنے پڑیں گے ۔ لہٰذا ، میں سمجھتا ہوں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ وہی ہے جو اس سال گرمیوں میں فوجوں کی واپسی شروع ہونے کے بعد ہو گا۔‘‘
امریکہ نے 2014ء کے آخر تک بیشتر لڑاکا فوجیوں کو نکالنے اور سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ جنرل بارنو کا خیال ہے کہ حالیہ واقعات سے جو نقصان ہوا ہے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش میں، اس ٹائم ٹیبل میں معمولی سا رد و بدل ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق ’’میں نہیں سمجھتا کہ اس ٹائم ٹیبل میں کوئی ڈرامائی تبدیلی آئے گی۔ میں جب امریکہ کے اندر اور یورپ میں نیٹو کے ملکوں پر نظر ڈالتا ہوں، تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگلے سال، یعنی 2013ء میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کو منتقل کرنے پر اتفاق ِ رائے پیدا ہو رہا ہے۔ یہ اصل منصوبے سے مختلف ہے جس میں یہ کام 2014ء کے آخر میں ہونا تھا۔‘‘
توقع ہے کہ مئی میں شکاگو میں نیٹو کی سربراہ کانفرنس کے ایجنڈے میں اس معاملے کو اہم مقام حاصل ہوگا۔