امریکہ میں خواتین فوجی اہلکاروں کے ساتھ ان کی مرضی کے بغیر جنسی روابط قائم کرنے کی کوشش کے واقعات دوہزار اکیس میں اپنی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کی جانب سے جمعرات کو جاری کی گئی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس نوعیت کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کے عمل کی سولہ سال تاریخ میں متاثرہ خواتین کی یہ تعداد اب تک سب سے زیادہ ہے۔
امریکی کانگریس کی جانب سے منظوری کے بعد فوج میں جنسی استحصال کے واقعات کی روک تھام کے لیے جنسی حملوں اور ایسے واقعات پر کارروائی کے لیے سال 2005 میں یہ خصوصی شعبہ قائم کیا گیا تھا۔ اور اگلے ہی سال ایسے واقعات کا ڈیٹا اکھٹا کرنا شروع کر دیا گیا تھا۔
امریکی افواج کے اندر جنسی حملوں پر مبنی نئی سالانہ رپورٹ “ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفیس فسکل 2021 رپورٹ آن سیکشوئل اسالٹ ان ملٹری” کے اس سروے میں لگ بھگ 36 ہزار اہلکاروں نے کہا کہ ان کی مرضی کے بغیر ان کے ساتھ جنسی روابط قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔
SEE ALSO: فوجی اڈے پر تشدد اور ہراساں کیے جانے کے واقعات: امریکی فوج کے 14 افسران فارغسال 2018 کے مقابلے میں اس سال متاثرین کی یہ تعداد تقریباً دوگنا زیادہ رہی۔
امریکی محکمہ دفاع کی تشریح کے مطابق بغیر مرضی کے جنسی روابط قائم کرنا یا جنسی استحصال کرنا جس میں ریپ، زور زبردستی کرنا یا ایسی کوشش کرنے کے واقعات شامل ہیں۔
پینٹاگان کے مطابق مردوں کے ساتھ جبری طور پر جنسی روابط قائم کرنے کی کوششوں کے سال 2006ٴ میں سب سے زیادہ واقعات پیش آئے تھے ۔ اور اس سال مردوں کے ساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات دوسری بڑی تعداد میں سامنے آئے۔
واشنگٹن میں جمعرات کو پینٹاگان میں اس سے متعلق بریفینگ میں آفس آف فورس ریزیلینسی Office of Force Resiliency کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر الزبتھ فوسٹر نے کہا کہ یہ تازہ اعدادوشمار پریشان کن ہیں۔
“اپنا عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن ہی سکریٹری دفاع للائیڈ آسٹن نے محکمے کے اندر رونما ہونے والے جنسی حملوں کی روک تھام کے نظام کو بہتر بنانے کو ترجیح دی تاکہ افواج کے اندر کے انصاف کے نظام پر سروس ممبران کے اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔”
SEE ALSO: امریکی فوج میں خواجہ سراؤں کی بھرتی پر عائد پابندی ختماس جائزہ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ امریکی فوج میں حاضر ڈیوٹی خواتین اہلکاروں میں سے، جنہوں نے اس سروے میں حصہ لیا، 8.4 فیصد نے جبکہ 1.5 فیصد مرد اہلکاروں نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کا انکشا ف کیا۔
پینٹاگون کے اس سروے کو جنسی استحصال رپورٹ کرنے کے لیے اب تک کا بہترین نظام سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ سروے فوجی اہلکاروں کی شناخت افشا نہیں کرتا۔اس سروے میں فوج، نیوی اور فضائی افواج کے اہلکار وں کی رائے شامل کی جاتی ہے۔
اس سلسلے میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’ پروٹیکٹ آور ڈیفینڈرز‘ ( Protect our Defenders) کے صدر اور امریکی بحریہ کے سابق چیف پروسیکیوٹر ریٹائرڈ کرنل ڈان کرسٹینسن نے تازہ اعدادوشمار پر مایوسی کا اظہار کیا۔
“آج جو اعداشمار افشا ہوئے ہیں، وہ پریشان کن ہیں۔ اس سلسلے میں کوئی نرمی نہ برتنے کے کھوکھلے وعدوں اور ایک دہائی سے خرچ کیے جانے والے بلین ڈالرز کے باوجود آج امریکی افواج میں ریپ اور جنسی استحصال کے واقعات اپنی تاریخ کے عروج پر ہیں۔”
ڈپٹی ڈیفنس سکریٹری کیتھلین ہکس نے گزشتہ سال پینٹاگون کی نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ "جنسی طور پر ہراساں کرنا اور جنسی حہ کرنا ہماری فورس میں سنگین مسئلہ رہا ہے۔ جن کی وجہ سے سروس ممبران کے لیے مہلک نتائج اور ہماری جنگی تیاری پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوئے۔
امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ اس سال تاخیر کا شکار ہوئی۔ جنسی استحصال سے متعلق رپورٹ عموماً ہر سال مئی کے مہینے میں شائع کی جاتی ہے۔