امریکہ نے بدھ کو ایک بار پھر کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی تبدیلی کے سلسلے میں امریکہ کے خلاف لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔
واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ امریکہ پاکستان یا کسی دوسرے ملک کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔
ترجمان میتھیو ملرنے روزانہ کی پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا۔"’مجھے نہیں معلوم کہ میں اس سوال کا کتنی بار اس پوڈیم سے ایک ہی جواب دے سکتا ہوں جو یہ ہے کہ یہ الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔"
ترجمان سے پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کےایک بیان کے تناظر میں سوال کیا گیا تھا جس میں انہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خا ن کے اس اعتراف کے حوالے سے گفتگو کی تھی کہ عمران خان کا امریکی مداخلت کے بارے میں سائفر کا بیانیہ من گھڑت تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یادرہے کہ عمران خان نے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اپنی حکومت کے خاتمےکے لئے امریکہ پر الزام لگایا تھا کہ اس نے حزب اختلاف کے ساتھ مل کر ان کی حکومت کو ہٹایا اور یہ کہ اس سلسلے میں امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر نے ایک سائفر میں اس کے متعلق ان کی حکومت کو بتایاتھا۔
جب ایک صحافی نے ترجمان سے کہا کہ امریکہ اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ کرے گا تو ترجمان نے کہا کہ امریکہ پاکستان یا دوسرے کسی ملک میں کسی سیاسی مسئلےمیں خود کو ملوث نہیں کرتا۔
"ترجمان میتھیو ملر نے کہا،"امریکہ کسی ملک کے اندرونی سیاسی سوالات میں خود کو ملوث نہیں کرتا اور ہم پاکستان یا کسی دوسرے ملک کی سیاسی جماعتوں کا ساتھ نہیں دیتے۔"
SEE ALSO: اعظم خان کا مبینہ بیان: عمران خان کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟واضح رہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ نے عمران خان کے سابق قریبی ساتھی کی طرف سے سائفر کے من گھٹرت ہونے کے مبینہ اعتراف کو سابق وزیر اعظم کے خلاف چارج شیٹ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہیے۔
امریکہ نے متعدد بار عمران خان کے سائفر کے حوالے سے لگائے گئے ان الزامات کو بے بنیا د قراردیا ہے جن کےمطابق امریکہ کے نائب وزیر خارجہ ڈونلڈ لو نے مبینہ طور پر واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کو بتایا تھا کہ عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی پارلیمانی تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں پاکستان کے لیے بہتری ہوگی۔
عمران خان اور ان کے ساتھی دعویٰ کرتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم کی حکومت کو روس کے ساتھ یوکرین میں جنگ کے آغاز میں تعلقات بڑھانے کی پاداش میں ہٹایا گیا۔