امریکی عہدہ داروں کو امّید ہے کہ سنہ 2009 میں پاکستانی فوج نے جو حملہ کیا تھا اُسے وُہ شُمالی وزیرستان پر ایک بڑا حملہ کرنےکی بُنیاد کے طور پر استعمال کرے گی، جو اب امریکہ کے خلاف کاروائی کرنے والے طالبان جنگجؤوں کی ایک بڑی آماجگاہ بنا ہوا ہے
جنوبی وزیرستان کو طالبان کے چُنگل سے آزاد کرانے کے لئے پاکستان کی فوج نے سنہ 2009 میں جو فوجی کاروائی کی تھی اُس کے بعد کے حالات پر اور علاقے کی تعمیر نو کی مساعی پر ’ وال سٹریٹ جرنل‘ میں ڈیون نی سین بام، کوٹ کائی سے ایک مراسلے میں بتاتے ہیں کہ 28 ہزار فوجیوں اور بمباری اور چھاتہ فوجوں کی مدد سے دو ماہ کے اندر اس علاقے کو باغیوں سے پاک کر دیا گیا تھا۔
لیکن، اِس دوران علاقے کی پانچ لاکھ نوّے ہزار کی آبادی کا دو تہائی وہاں سے فرار ہو گیا تھا۔ حتیٰ کہ، پرندے بھی وہاں سے فرار ہوگئے تھے۔ اب اِن لوگوں کو جنگ سے تباہ ہونے والے اس علاقے میں واپس آنے پر آمادہ کرنے کا کام اُتنا ہی بڑا چیلنج بنا ہوا ہےجتنا کہ جنگجؤوں کو وہاں سے بھگانا۔ اور، جیسا کہ ’انٹر پرائزانسٹی ٹیُوٹ‘ کےمحقّق رضا نسیم جام، جو بغاوت کو کُچلنے کی مہم کا مطالعہ کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ لوگ تو واپس جانا چاہتے ہیں لیکن، ڈر کے مارے نہیں جا رہے۔
امریکہ کو اِس حکمت عملی میں دلچسپی ہے جو اِس جدید زمانے کی ایک تلخ حقیقت ہے اور جس میں مختلف ملک لڑائی کے اُن خطرناک علاقوں میں استحکام لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
سنہ 2007 سے امریکہ نے جنوبی وزیرستان اور سرحدی علاقے کی سولین امداد کے لئے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم فراہم کی ہے۔ امریکی عہدہ داروں کو امّید ہے کہ سنہ 2009 میں پاکستانی فوج نے جو حملہ کیا تھا اُسے وُہ شُمالی وزیرستان پر ایک بڑا حملہ کرنے کی بُنیاد کے طور پر استعمال کرے گی، جو اب امریکہ کے خلاف کاروائی کرنے والے طالبان جنگجؤوں کی ایک بڑی آماجگاہ بنا ہواہے۔
ڈیون نی سین بام کا کہنا ہے کہ اُنہیں پاکستانی فوج نے ایسے علاقوں میں جانے کی اجازت دی جہاں عرصہٴدراز سے غیر ملکی صحافیوں پر جانے کی سخت ممانعت تھی، اور اُس نے دیکھا کہ پاکستانی فوج اب جنوبی وزیرستان کے فلاکت زدہ قصبوں کو بحال کرنے کی مہم میں مصروف ہے، تاکہ اس علاقے کو جو عرصہٴدراز تک باغیوں کے استعمال میں رہا ہے، ایسی پُرامن پناہ گاہ میں بدل دیا جائے جہاں جنگجو اب پناہ نہ لے سکیں۔ یہ مہم اُنہی خطوط پر چلائی جارہی ہے جو خود امریکہ نے افغانستان اور عراق میں اپنائی تھی، جہاں امریکی فو جوں نے باغیوں کے چھوڑے ہوئے مضبوط گڑھ دوبارہ تعمیر کرنے میں کئی برس گُزار دئے ۔
نامہ نگار کا کہنا ہے کہ ڈرون طیاروں کے حملےابھی بھی متنازع امور کا حصّہ ہیں، اور پاکستان میں اس امریکی پروگرام کو ملک کی حاکمیت اعلیٰ کی خلاف ورزی کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں۔ امریکی عہدہ دار اِن حملوں کو دہشت گردوں کے خلاف نہائت ہی موثّر آلے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن تحقیقی اداروں اور حقوق انسانی کے اداروں کا کہنا ہے کہ سنہ 2004 سے ان حملوں میں پاکستان میں600 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیل کےعام انتخابات کے نتائج پر’پٹس برگ گزٹ‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ان سے وزیر اعظم نیتن یاہو کی مخلوط حکومت کو پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں ملی ہوں
گی۔ لیکن، ایسا لگ رہا ہے کہ بڑھتے ہوئے خلفشار والےاس علاقے میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ انتخابی نتائج سے علاقائی امن کے امکانات میں ذرّہ بھر فرق نہیں پڑا ہے کہ ایسے اسرائیلی فلسطینی مذاکرات دوبارہ ہوں جن سے دو مملکتوں پر مبنی حل طے پائے۔
اسرائیل میں امن کے روایتی حامیوں کی منگل کےانتخابات میں کارکردگی اچھی نہیں تھی، امریکی انتخابات میں مسٹر نیتن یاہو نے ری پبلکن صدارتی امیدوار مٹ رامنی کے لئے اپنی حمائت کو چُھپایا نہیں۔ اور اس کے پیش نظر اس قسم کا حل کوئی آسان کام نہ ہوگا۔
اِس کے باوجود، اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ پر لازم ہے کہ وُہ اپنی دوسری مدت صدار ت میں امن کے مفاد میں اس حل کی کوشش کریں اور جب وزارت خارجہ کے لئے صدر اوبامہ کے نامزد امیدوار سینیٹر جان کئیری اپنا عہدہ سنبھالیں تو مشرق وسطیٰ کے مذاکرات کا معاملہ اُن کی ترجیحات کی فہرست میں سب سے اوپر ہونا چاہئیے، اگر اسرائیلی فلسطینی مسئلے کی طرف دھیان نہ دیا گیا تو یہ معاملہ اور بھی بگڑ جائے گا۔
لیکن، اِس دوران علاقے کی پانچ لاکھ نوّے ہزار کی آبادی کا دو تہائی وہاں سے فرار ہو گیا تھا۔ حتیٰ کہ، پرندے بھی وہاں سے فرار ہوگئے تھے۔ اب اِن لوگوں کو جنگ سے تباہ ہونے والے اس علاقے میں واپس آنے پر آمادہ کرنے کا کام اُتنا ہی بڑا چیلنج بنا ہوا ہےجتنا کہ جنگجؤوں کو وہاں سے بھگانا۔ اور، جیسا کہ ’انٹر پرائزانسٹی ٹیُوٹ‘ کےمحقّق رضا نسیم جام، جو بغاوت کو کُچلنے کی مہم کا مطالعہ کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ لوگ تو واپس جانا چاہتے ہیں لیکن، ڈر کے مارے نہیں جا رہے۔
امریکہ کو اِس حکمت عملی میں دلچسپی ہے جو اِس جدید زمانے کی ایک تلخ حقیقت ہے اور جس میں مختلف ملک لڑائی کے اُن خطرناک علاقوں میں استحکام لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
سنہ 2007 سے امریکہ نے جنوبی وزیرستان اور سرحدی علاقے کی سولین امداد کے لئے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم فراہم کی ہے۔ امریکی عہدہ داروں کو امّید ہے کہ سنہ 2009 میں پاکستانی فوج نے جو حملہ کیا تھا اُسے وُہ شُمالی وزیرستان پر ایک بڑا حملہ کرنے کی بُنیاد کے طور پر استعمال کرے گی، جو اب امریکہ کے خلاف کاروائی کرنے والے طالبان جنگجؤوں کی ایک بڑی آماجگاہ بنا ہواہے۔
ڈیون نی سین بام کا کہنا ہے کہ اُنہیں پاکستانی فوج نے ایسے علاقوں میں جانے کی اجازت دی جہاں عرصہٴدراز سے غیر ملکی صحافیوں پر جانے کی سخت ممانعت تھی، اور اُس نے دیکھا کہ پاکستانی فوج اب جنوبی وزیرستان کے فلاکت زدہ قصبوں کو بحال کرنے کی مہم میں مصروف ہے، تاکہ اس علاقے کو جو عرصہٴدراز تک باغیوں کے استعمال میں رہا ہے، ایسی پُرامن پناہ گاہ میں بدل دیا جائے جہاں جنگجو اب پناہ نہ لے سکیں۔ یہ مہم اُنہی خطوط پر چلائی جارہی ہے جو خود امریکہ نے افغانستان اور عراق میں اپنائی تھی، جہاں امریکی فو جوں نے باغیوں کے چھوڑے ہوئے مضبوط گڑھ دوبارہ تعمیر کرنے میں کئی برس گُزار دئے ۔
نامہ نگار کا کہنا ہے کہ ڈرون طیاروں کے حملےابھی بھی متنازع امور کا حصّہ ہیں، اور پاکستان میں اس امریکی پروگرام کو ملک کی حاکمیت اعلیٰ کی خلاف ورزی کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں۔ امریکی عہدہ دار اِن حملوں کو دہشت گردوں کے خلاف نہائت ہی موثّر آلے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن تحقیقی اداروں اور حقوق انسانی کے اداروں کا کہنا ہے کہ سنہ 2004 سے ان حملوں میں پاکستان میں600 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیل کےعام انتخابات کے نتائج پر’پٹس برگ گزٹ‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ان سے وزیر اعظم نیتن یاہو کی مخلوط حکومت کو پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں ملی ہوں
گی۔ لیکن، ایسا لگ رہا ہے کہ بڑھتے ہوئے خلفشار والےاس علاقے میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ انتخابی نتائج سے علاقائی امن کے امکانات میں ذرّہ بھر فرق نہیں پڑا ہے کہ ایسے اسرائیلی فلسطینی مذاکرات دوبارہ ہوں جن سے دو مملکتوں پر مبنی حل طے پائے۔
اسرائیل میں امن کے روایتی حامیوں کی منگل کےانتخابات میں کارکردگی اچھی نہیں تھی، امریکی انتخابات میں مسٹر نیتن یاہو نے ری پبلکن صدارتی امیدوار مٹ رامنی کے لئے اپنی حمائت کو چُھپایا نہیں۔ اور اس کے پیش نظر اس قسم کا حل کوئی آسان کام نہ ہوگا۔
اِس کے باوجود، اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ پر لازم ہے کہ وُہ اپنی دوسری مدت صدار ت میں امن کے مفاد میں اس حل کی کوشش کریں اور جب وزارت خارجہ کے لئے صدر اوبامہ کے نامزد امیدوار سینیٹر جان کئیری اپنا عہدہ سنبھالیں تو مشرق وسطیٰ کے مذاکرات کا معاملہ اُن کی ترجیحات کی فہرست میں سب سے اوپر ہونا چاہئیے، اگر اسرائیلی فلسطینی مسئلے کی طرف دھیان نہ دیا گیا تو یہ معاملہ اور بھی بگڑ جائے گا۔